پوٹھوہار نامہ

پوٹھوہاری ادب نے فروغ واسطے کوشاں پوٹھوہار نامہ

بدھ، 10 ستمبر، 2025

وہ جو سندھو کو نہیں جانتے۔۔۔ان کے لیے

 وہ جو سندھو کو نہیں جانتے۔۔۔ان کے لیے
دیو مالائی اہمیت کے حامل دریائے سندھ کی لمبائی تقریبا 3,180 کلومیٹر ہے جو تبت میں جھیل مانسرور سے 30 کلومیٹر دور کیلاش کے برفانی پانیوں سے شروع ہوتا ہے۔
یہاں سے بہتا ہوا یہ عظیم دریا ایک چھوٹے سے مقام ’دم چک‘ سے لداخ میں داخل ہو جاتا ہے۔
لداخ میں اسے ’سنگھے کھب‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ سنگھے کا مطلب ہے ’شیر‘ اور کھب کا مطلب ہے ’منہ‘۔
پاکستان بھر میں اس دریا کے مختلف نام ہیں۔ یہ جن جن بستیوں کو سیراب کرتا اور ان کے دامن میں خوشحالی انڈیلتا گزرتا ہے وہاں کے رہنے والے اسے محبت اور شکر گزاری سے مختلف نام دیتے ہیںG
مثلا پشتو میں اسے’ابا سین‘ یعنی دریاﺅں کا باپ، سندھ میں اسے ’مہران‘ اور ’سندھو ندی‘ بھی کہا جاتا ہے۔
لفظ ’سندھو‘ سنسکرت کا لفظ ہے جس کی بنیاد ’سیند‘ پر ہے اور جس کے معنی ’بہنے‘ کے ہیں لیکن آج کوٹری بیراج پر کھڑے ہو کر اس سدا بہنے والے دریائے سندھ کو ڈھونڈنا پڑتا ہے۔
یہاں سال کے آٹھ مہینے ریت اڑ رہی ہوتی ہے اور دریا کے پاٹ میں دور دور تک پانی کا نام و نشان نہیں ہوتا۔
دنیا کے بڑے دریاﺅں میں نیل اوردریائے سندھ وہ دریا ہیں جو اپنے پانی کے ساتھ بڑی مقدار میں ریت اورزرخیز مٹی لاتے ہیں لیکن دریائے سندھ کے پانی میں ریت اورمٹی کی مقدار دریائے نیل سے تین گنا زیادہ ہوتی ہے۔
برطانوی گزٹ کے مطابق 1873 تک دریا کے پانی کے ساتھ آنے والی مٹی نے تقریباً 97 مربع میل ڈیلٹا کی نئی زمین بنائی تھی۔
دریائے سندھ،تصویر کا ذریعہUN FAO & IBEX FILMS
وادی مہران کی تہذیب
یہ بھی حقیقت ہے کہ تہذیبیں دریا ہی کے کنارے پھلتی پھولتی اور ارتقا کے مراحل طے کرتی ہیں۔ دریائے سندھ کے کناروں پر بھی دنیا کی قدیم ترین تہذیب ’وادی مہران کی تہذیب‘ یا انڈس سولائزیشن نے جنم لیا اور یہیں ارتقا کے مراحل طے کیے۔ (یہاں وادی سندھ سے مراد صرف صوبہ سندھ نہیں کیونکہ ہزاروں برس پر محیط اس تہذیب کے نشانات سندھ کے علاوہ پنجاب، بلوچستان، خیبر پختونخوا اور انڈیا میں بھی پائے گئے ہیں)۔
اس عظیم الشان تہذیب کے چند شواہد اگرچہ بیسویں صدی کے اوائل میں سامنے آتے رہے لیکن 1922 میں ایک باقاعدہ منظم شہر کی صورت موئن جو دڑو کی دریافت نے ماہرین میں ہلچل مچا دی تھی۔
گوکہ یہاں سے ملنے والی اشیا پر موجود عبارت ابھی مکمل طور پر پڑھی نہیں جا سکی مگر دیگر شواہد کی بنیاد پر ماہرین اس تہذیب کو پانچ ہزار جبکہ حالیہ ریسرچ کے مطابق سات ہزار سال قدیم تہذیب مانتے ہیں اور اسے مصری اور عراقی تہذیب سے قدیم اور حجم میں ان دونوں سے کہیں بڑی قرار دیتے ہیں۔
وادی مہران کی اس قدیم تہذیب کے باشندے اپنے رہن سہن اور شہری تعمیر میں کس قدر ترقی یافتہ تھے اس کا اندازہ ہڑپہ، موئن جو دڑو، سوات اور دیگر بے شمار آثار قدیمہ کو دیکھ کر با آسانی ہوجاتا ہے۔
موئن جو دڑو کے صاف ستھرے کشادہ گلی کوچے، پانی کے تالاب، اناج رکھنے والے بڑے بڑے گودام ، یہاں سے ملنے والا سازو سامان ۔
خصوصاً زیورات ان لوگوں کی خوشحالی کی کہانی سناتے ہیں
اس سال کے سیلاب نے آنے والے منظرنامے کو اور بھی واضح کر دیا ہے۔ پاکستان کو اس حوالے سے تیار رہنے کی جتنی ضرورت اب ہے پہلے کبھی نہ تھی۔ لہذا پاکستان کو اگر محفوظ کرنا ہے تو دریا ئے سندھ اور اس کے وسائل کو محفوظ رکھنا ہوگا کیونکہ دریائے سندھ اور پاکستان ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔‘
ہم دریائے سندھ کی اہمیت کو صرف زراعت سے جوڑتے ہیں، یہ اس سے زیادہ کا معاملہ ہے کیونکہ معیشت کا تین چوتھائی حصہ دریائے سندھ کے پانی پر ہی انحصار کرتا ہے۔
دریا کو صنعتی اور زرعی فضلے اور پلاسٹک کی آلودگی سے پاک رکھنا بھی ضروری ہے۔ مختصر یہ کہ ہمیں صرف دریا کے پانی ہی نہیں بلکہ پورے دریائی ماحولیاتی نظام کی بحالی پر کام کرنا ہے۔ دریا کا صحت مند ماحولیاتی نظام ہی پائیدار ترقی کا ضامن ہے۔
لیونگ انڈس منصوبہ پاکستان کے سابق وزیر موسمیاتی تبدیلی ملک امین اسلم (پاکستان تحریک انصاف) کے دور میں شروع کیا گیا تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ ’دریائے سندھ جو پاکستان کی ’لائف لائن‘ ہے، اس کی حفاظت کے لیے لیونگ انڈس جیسے منصوبے بہت اہم اور ناگزیر ہیں۔‘
’یہ منصوبہ پورے ملک کی ماحولیات کا احاطہ کرتا ہے اور اگر ہم موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرات سے نمٹنا چاہتے ہیں تو پورے دریا کے ماحولیاتی نظام کو بحال کرنا بہت ضروری ہے
بی بی سی اردو کے لیے لکھے گئے مضمون سے اںتخاب

جمعہ، 5 ستمبر، 2025

علاقہ نلہ اٹک کا قدیم ترین گاؤں کوٹ سونڈکی


 علاقہ نلہ اٹک کا قدیم ترین گاؤں کوٹ سونڈکی

ساون بھادوں کے برساتی موسم میں بھنگ اور گاجر بوٹی سے چھپی ہوئی ہوئی قبروں پر اپنے دور کا عظیم محقق اور جغرافیہ دان راجہ نور محمد نظامی دعائے مغفرت کے لیئے ہاتھ اٹھائے کھڑا تھا بعد از دعا میں نے پوچھا کہ آپ کے تجربے کے مطابق یہ قبور کتنی پرانی ہیں
پرسوچ نظروں سے میری طرف دیکھنے کے بعد کہنے لگے کہ یہ قبریں مغلیہ دور سے پہلے کے فن تعمیر کی عکاس ہیں قبروں پر کوئی کتبہ اور تحریر درج نہیں ہے لیکن پتھروں اور چونے کی مدد سے ایک چوکور چبوترے پر دو بڑی اور چار چھوٹی قبریں ہیں جو دیکھنے میں اپنے دور کی کسی صاحب جاہ وحشمت اور شاہی خاندان کی قبریں تھیں
راجہ نور محمد نظامی صاحب کا تعلق تحصیل حسن ابدال کے ایک چھوٹے مگر تاریخی گاؤں بھوئی گاڑ سے ہے
اور ایک بہت بڑی لائبریری جس میں تقریبا 22سے23ہزار کتابیں اور ہزاروں کی تعداد میں قدیم نوادرات ذاتی کوششوں سے جمع کیئے ہوئے ہیں تاریخ اور آثارقدیمہ پر راجہ صاحب ایک اتھارٹی رکھتے ہیں اور مشاہداتی تجربہ اتنا عمیق ہے کہ کسی چیز کو بغور دیکھ کر اندازے سے بتا سکتے ہیں کہ اس قدیم پتھر، عمارت، برتن کی طبعی عمر کتنی ہے
سب سے پہلے راجہ نور محمد صاحب کا شکریہ کہ میرے جواں سالہ بھتیجے کی ناگہانی موت اور دکھ کی گھڑیوں میں فاتحہ خونی کے لیئے میرے گھر آمد کی اللہ جزائے خیر دے
بعد از دعا درود دن کا کھانا کھانے کے بعد دو موٹر سائیکلوں اور چار افراد یعنی بقلم خود،سید محمود، راجہ نور محمد نظامی اور ان کا پسر راجہ ساریہ ہم نکل پڑے علاقہ گردی کے لیئے
سب سے پہلے تو علاقے کوٹ سونڈکی کی عظیم روحانی شخصیت پیر محبت شاہ کے دربار پر فاتحہ خوانی کی اور ساتھ ملحقہ قبرستان میں خداداد خان عرف دادؤ خان کی قبر پر بھی فاتحہ خوانی کی اور درابار سے ملحقہ سینکڑوں کنال رقبہ جہاں پھلاہی کے سینکڑوں سال قدیم اور قد آور درختوں کا جنگل اور درمیان سے گزرتی ندی ،قدیمی اور وسیع قبرستان ہے کے بارے میں راجہ صاحب نے اپنی راۓ دی کہ اس جگہ کا محل وقوع بتا رہا ہے کہ یہاں قدیم دور میں قافلوں اور لشکروں کا پڑاؤ رہا ہو گا جب گھوڑےاونٹ اور خچر بار برداری کے لیئے استعمال ہوتے تھے تو ہر کوٹ (یعنی چھوٹا قلعہ)یا بڑی آبادی کے قرب جوار میں ایک وسیع قطعہ اراضی جانوروں کے چرنے اور آرام کرنے کے لیئے مختص کیا جاتا تھا اور وہاں پر پانی کا بندوبست بھی کیا جاتا تھا تو یہ تمام لوازمات یہاں پر موجود ہیں تو یہ جگہ لازما پڑاؤ رہی ہوگی اور خداد خان عرف دادؤخان کے زمانے تک پڑاؤ کی ضروریات نہیں رہی تھیں تو یہ رقبہ قبرستان کے لیئے مختص کر دیا گیا ہو گا
یہاں سے آگے ہم کو گ پہنچے کوٹ گاؤں کے سب سے قدیمی قرستان میں جو کہ گاؤں کے مغرب میں بر لب سڑک ہے نام تو قبرستان ہے لیکن اتنا پرانا ہو چکا ہے کہ اب تو قبروں کے کتبے خال خال ہی نظر آتے ہیں ، قبرستان پر ڈھور ڈنگر پھر رہے تھے ایک دو سوزوکیاں قبرستان کو سواری اڈہ بنائے کھڑی تھیں دو تین جگہ گوبر کے ڈھیر بھی قرستان کے اپر ہی بنے تھے اور کہیں کہیں ریت اور کرش کے ڈھیر بھی پڑے ہوئے تھے،اور باقی سارا قرستان جھاڑ جنگاڑ سے اٹا پڑا تھے اور خستہ حال قبریں چیخ چیخ کر کہ رہی تھیں کہ دنیا فانی ہے
میں نظامی صاحب کو لیئے وسیع و عریض رقبے پر پھیلےقرستان میں بچ جانے والی والی ان پختہ قبور پر لے گیا جن کو دیکھ راجہ صاحب نے آگاہ کیا کہ ان قبور کو فن تعمیر سلاطین دہلی کے مسلم دور حکومت کا ہے جو مغلوں سے پہلے ہندوستان کے حکمران تھے
تاریخ سر زمین اٹک میں لکھا ہے کہ کوٹ (یعنی چھوٹا قلعہ )کوعلاول خان نے آباد کیا کیا تھا تاہم تاریخ یہ بتانے سے قاصر ہے کہ کس سن عیسوی میں اس گاؤں کی بنیاد رکھی گئی نظامی صاحب نے اپنا خیال پیش کیا کہ ممکنہ طور پر یہ قبور علاول خان اور اُن کے خاندان کی ہو سکتی ہیں
ہماری اگلی منزل ٹھہری خانوں والی مسجد جو کہ خدادا خان عرف دادؤ خان نے اپنی عالیشان بیٹھک کے ملحق تعمیر کروائی تھی جو آج بھی اپنے منقش لکڑی کے دروازے پکی اینٹوں کے فرش اور پتھر کی بنی موٹی دیوروں سے عظمت رفتہ کی داستان سنا رہی تھی
اس بعد ہم نے کوٹ گاؤں کی سب سے بڑی جامع مسجد کا دورہ کیا اور مسجد امام کی وساطت سے مسجد کے خادم کو بلا کر مسجد کھلوائی اور مسجد کے وسیع حال کی شمالی دیوار میں بنے دروازے سے مایہ ناز عالم اور پانچ کتابوں کے مصنف قاضی نورالحق صاحب کی قبر پر فاتحہ خوانی کی جو اپنے وقت میں پیر مہر علی شاہ صاحب کے ساتھ تحریک ختم نبوت کے بہت بڑے مجاہد تھے
نظامی صاحب ہر وقت قدیم نوادرات کی کھوج میں رہتے ہیں مسجد سے نکلتے ہی ساتھ میں موجود شوکت لوہار کی دوکان پر رک نظامی صاحب نے پوچھا کہ کہ کیا آپ لوگوں کے پاس کوئی قدیمی چیز پڑی ہوئی ہے
تو دوکاندار کہنے لگا کہ نہیں ہم تو درانتی ترنگل وغیرہ بناتے ہیں
پاس میں ہی بیٹھے اختر نامی شخص کہنے لگا کہ میرے گھر میں ایک بہت بڑی پتھر کی سل پڑی ہوئی ہے اور اس کے اوپر کچھ لکھا ہوا ہے نظامی صاحب اس کے ساتھ چلے گئے اور واپس خالی ہاتھ آئے یکم چہرے کی بشاشت کسی کامیابی کی نوید سنا رہی تھی وہ موبائل سے اس پتھر پر کندہ تحریر کی تصویر لے کر آئے تھے
کہانی کچھ یوں تھی کہ جب پنجاب پر سکھوں کا قبضہ ہوا تو باہتر کے کٹھڑ سردار فتح خان نے سکھوں کا بھر پور ساتھ دیا اور بدلے میں چار موضع جاگیر ٹھیکے پر حاصل کر لی جس میں باہتر بھگوی،کوٹ سعد اللہ،اور لنڈی کے موضع جات شامل تھے
یہاں پر فتح خان نے ایک عالیشان اور وسیع و عریض محل بنوایا تھا جو کہ کنجور کے پتھروں کو تراش کر بلاک کی شکل دے کر چیڑ کے شہتیر اور بالا پھٹی کی چھت سے مکمل کیا تھا 1880 میں فتح خان اور1894میں دادؤخان کی وفات ہو گئی اور دادؤ خان لاولد فوت ہوا تو اس کی تمام جائیداد کے وارث اس بھتیجے بنے جو کہ باہتر میں رہائش پذیر تھے اور یوں مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے وہ عظیم الشان عمارت ملبے کا ڈھیر بنی اور کوئی والی وارث نہ ہونے کی وجہ سے زمانے کی دست برد کا شکار ہو گئی اور اس پتھر کی تختی پر اس کے بانی فتح خان اور تکمیل دادؤخان کے ہاتھوں ہوئی کے الفاظ فارسی زبان میں کندہ ہیں اس عالیشان عمارت کی کچھ تصاؤیر میرے پاس محفوظ میں جو میں پوسٹ کے ساتھ لگا دوں گا
نظامی صاحب زندگی میں پہلی دفعہ کوٹ سونڈکی میں آئے تھے میری بھی چھٹی کم تھی اور میں اپنے علاقے کی قدیم تاریخ کی کھوج میں کافی دلچسپی رکھتا تھا تو میں نے راجہ صاحب کو لنڈی کا قدیم چشمہ وزٹ کروایا اور پھر ہم چل پڑے گڑھی بابا کے مزار پر
گڑھی کو جانے والے کچے اور ہچکولے کھاتے راست پر ایک کلو میٹر کے سفر کے بعد دربار پر پہنچے اور وہاں گھوم پھر کر راجہ صاحب نے بتایا کہ اس مقام پر آج سے تین ہزار قبل گڑھی تعمیر کی گئے تھی گڑھی کا مطلب بھی چھوٹا قلعہ ہوتا ہے اور یہ مقام پر ایک ندی اور ایک برساتی نالے کا ملاپ ہوتا ہے اور ان کے سنگم پر یہ گڑھی واقع تھی
قدیم رویات کی روشنی میں اس گڑھی کے جنوبی جانب مسلم دورمیں ایک شہر نور پور کے نام سے آباد تھا جو کہ یہاں کے قدیم قبیلے گوجروں کا تھا جو نامعلوم وجوہات کی بنا پر اجڑناشروع ہوا اور آہستہ آہستہ آبادی کم ہوتی گئی اور اس ہی وجہ سے اس کا نام لنڈی مشہور ہو گیا اور چند گھروں پر مشتمل یہ آبادی آج بھی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے اور ان کا ایکڑوں کے حساب سے چھوڑا ہوا قبرستان یہاں پر موجود ہے
تحریر
زمرد علوی کوٹ سونڈکی

برصغیر میں بجلی کی تاریخ

 کوئی بتا سکتا ہے کراچی۔ لاہور اور راولپنڈی میں کب پہلی مرتبہ بجلی فراہم کی گئی؟؟

برصغیر میں بجلی کی تاریخ ۔۔۔
1900 کی دہائی میں مدراس متحدہ بھارت میں زیر زمین بجلی کی فراہمی کے لئے تاریں بچھانے کا عمل1900 کی دہائی کے اوائل میں، بھارت میں بجلی کی فراہمی کا نظام ترقی کے ابتدائی مراحل میں تھا۔ برطانوی راج کے تحت، بجلی کی بنیادی سہولتیں بڑے شہروں تک محدود تھیں، اور ان میں بھی زیادہ تر بجلی کے کھمبے اور اوور ہیڈ کیبلز کے ذریعے سپلائی ہوتی تھی۔ تاہم، وقت کے ساتھ ساتھ، شہروں میں جدیدیت اور شہری آبادی کے بڑھتے ہوئے دباؤ نے زیر زمین بجلی کی فراہمی کے نظام کی ضرورت کو اجاگر کیا۔
زیر زمین بجلی کی فراہمی کی ابتدا
بمبئی (موجودہ ممبئی) اور کلکتہ (موجودہ کولکاتا) جیسے بڑے شہروں میں زیر زمین بجلی کی فراہمی کا آغاز کیا گیا۔ اس کا مقصد بجلی کے نظام کو زیادہ محفوظ اور قابل اعتماد بنانا تھا۔ اوور ہیڈ کیبلز کے بجائے، زیر زمین کیبلز استعمال کی جانے لگیں، جو نہ صرف بجلی کی چوری اور حادثات کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوئیں بلکہ قدرتی آفات جیسے طوفانوں اور بارشوں کے دوران بجلی کی فراہمی کو زیادہ مستحکم بناتی تھیں۔
بمبئی میں 1920 کی دہائی میں زیر زمین بجلی کی فراہمی کا آغاز ہوا۔ اس وقت شہر میں صنعتی ترقی عروج پر تھی اور بجلی کی طلب میں اضافہ ہو رہا تھا۔ شہر کے مرکزی علاقوں، جیسے فورٹ اور کولابا، میں زیر زمین کیبلز بچھائی گئیں۔ اس منصوبے نے بمبئی کو جدید شہری انفراسٹرکچر کے ساتھ آگے بڑھنے میں مدد دی اور شہر کے بجلی کے نظام کو مزید بہتر اور محفوظ بنایا۔
کلکتہ، جو اس وقت برطانوی ہندوستان کا دارالحکومت تھا، میں بھی زیر زمین بجلی کی فراہمی کے منصوبے پر کام کیا گیا۔ شہر کے قدیم اور گنجان آباد علاقوں میں بجلی کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے یہ ایک ضروری قدم تھا۔ زیر زمین بجلی کی کیبلز نے شہر کے بجلی کے نظام کو زیادہ مؤثر اور طویل مدتی بنایا۔
زیر زمین بجلی کی فراہمی کے نظام نے بھارت کے شہروں میں شہری ترقی کے لیے ایک اہم کردار ادا کیا۔ اس نظام کے فوائد میں بجلی کے نظام کی حفاظت، استحکام، اور دیرپا کارکردگی شامل تھی۔ اس کے علاوہ، یہ نظام شہروں کے جمالیاتی منظر کو بھی بہتر بناتا تھا، کیونکہ بجلی کی کھمبوں اور اوور ہیڈ کیبلز کی ضرورت نہیں رہتی تھی۔
1900 کی دہائی میں بھارت میں زیر زمین بجلی کی فراہمی کا آغاز ایک انقلابی قدم تھا، جس نے شہری علاقوں میں بجلی کی فراہمی کو زیادہ مؤثر، محفوظ، اور جدید بنایا۔ اس وقت کے منصوبے آج بھی بھارت کے بڑے شہروں میں زیر زمین بجلی کے نظام کی بنیاد ہیں، جو وقت کے ساتھ ساتھ مزید ترقی کرتے چلے گئے۔
صفدر حسین شاہ 

پی آئی اے کی پرواز PK-705 ایک المناک افتتاحی سفر، 20 مئی 1965

 پی آئی اے کی پرواز PK-705

ایک المناک افتتاحی سفر، 20 مئی 1965
انیس سو ساٹھ کی دہائی پی آئی اے کے عروج کا زمانہ تھا۔ دنیا کی بہترین ایئر لائنز میں اس کا نام لیا جاتا تھا۔ انہی دنوں 20 مئی 1965 کو پی آئی اے نے اپنی افتتاحی پرواز کراچی سے لندن کے لیے روانہ کی۔ یہ پرواز دہران (سعودی عرب)، قاہرہ (مصر) اور جنیوا (سوئٹزر لینڈ) پر رک کر آگے لندن پہنچنی تھی۔
وہ جہاز جدید بوئنگ 720-040B (AP-AMH) تھا اور اس میں کل 127 مسافر اور عملہ سوار تھا۔ ان میں نامور صحافی، مختلف ممالک کے مہمان، ٹریول ایجنسیوں کے نمائندے اور پی آئی اے کا بہترین عملہ شامل تھا۔ سب سے مشہور چہرہ ایئر ہوسٹس مومی درانی تھیں، جنہیں اس زمانے میں “پی آئی اے کا چہرہ” کہا جاتا تھا۔⚡ حادثہ کیسے ہوا
جب جہاز قاہرہ ایئرپورٹ پر اترنے کے قریب تھا تو پائلٹ نے بتایا کہ جہاز کے فلیپس میں خرابی آگئی ہے۔ جہاز نے ایک چکر لگایا اور پھر رن وے 34 پر اترنے کی کوشش کی، مگر اونچائی برقرار نہ رکھ سکا اور زمین سے پہلے ہی ٹکرا گیا۔ جہاز کا دایاں پر فوراً آگ پکڑ گیا اور لمحوں میں پورا جہاز شعلوں میں گھِر گیا۔
اس بھیانک حادثے میں صرف چھ افراد زندہ بچے۔ باقی سب — صحافی، مسافر، عملہ — ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے۔ ان میں چین کے بڑے جہاز ساز ہوانگ ژی چیان بھی شامل تھے۔🕯️ زندہ بچنے والے شوکت اے میکلائی کی کہانی
زندہ بچ جانے والوں میں شوکت اے میکلائی بھی تھے، جو اپنی اہلیہ بانو کے ساتھ سفر کر رہے تھے۔ وہ یاد کرتے ہیں:
“یہ ہمارا تیئسواں ہنی مون تھا۔ بانو فرسٹ کلاس میں تھیں اور میں پیچھے اکانومی میں۔ جیسے ہی جہاز اترنے لگا، میں نے جہاز کے دائیں پر کو جلتے دیکھا اور پھر بے ہوش ہوگیا۔
جب آنکھ کھلی تو میں اپنی مدد کے بجائے اپنا ہی نام پکار رہا تھا۔ ایک زخمی نوجوان، جو خود بھی لہولہان تھا، مجھے کھینچ کر باہر لے آیا۔ اردگرد لاشیں اور سامان بکھرا پڑا تھا۔ میری بیوی بھی ان میں تھی۔ دل پتھر ہوگیا تھا، کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ اس لمحے اللہ سے دعا کی کہ اگر زندگی ملی تو دوسروں کے لیے جیوں گا، جیسے کل کبھی آئے گا ہی نہیں۔”💔 حادثے کے بعد کا منظر
اصل تکلیف حادثے کے بعد شروع ہوئی۔
شوکت میکلائی بتاتے ہیں:
“ہم نے دیکھا لوگ دور سے دوڑتے آرہے ہیں۔ ہم سمجھے مدد کے لیے آ رہے ہیں۔ وہ ‘اللہ اکبر’ کہہ کر پہنچے مگر زخمیوں کو اٹھانے کے بجائے سامان اور بیگ اٹھا کر چلتے بنے۔”
مدد پانچ چھ گھنٹے بعد پہنچی۔ تب تک کئی زخمی تڑپ تڑپ کر جان دے چکے تھے۔ مصری حکام اتنے بڑے حادثے کے لیے تیار ہی نہ تھے۔ جو ہیلی کاپٹر آیا اس میں اسٹریچر تک نہیں تھا۔
آخر میں صرف چھ لوگ بچ پائے۔ باقی سب قاہرہ کی مٹی میں دفن ہوگئے۔ جب زندہ بچنے والے کراچی واپس آئے تو عوام نے ان کے زندہ بچ جانے کو معجزہ سمجھا اور یادگار استقبال کیا۔
شوکت میکلائی کے لیے یہ زندگی کا سب سے بڑا موڑ تھا۔ اچانک بیوی کے بغیر، تین بچوں کا باپ، لیکن ہمت اور ایمان کے ساتھ انہوں نے نیا سفر شروع کیا۔ یاد رہے کہ شوکت مکلائی 95 برس کی عمر میں 2014 میں اس دبیا سے رخصت ہوگئے۔
آج بھی PK-705 کی تباہئ جیسے واقعات یہ سبق دیتے ہیں کہ زندگی بہت نازک ہے، کل کا کوئی یقین نہیں۔ ایسے حادثات میں اصل امتحان یہ بھی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو انسانیت دکھائی جائے، نہ کہ مشکل میں گھرے لوگوں کو بے یارو مددگار تڑپتا چھوڑ دیا جائے۔
PIA Flight PK-705
A Tragic Inaugural Journey – 20 May 1965
The 1960s were the golden era of Pakistan International Airlines (PIA). It was counted among the finest airlines in the world. During that period, on 20 May 1965, PIA launched its inaugural flight from Karachi to London. The route included stopovers at Dhahran (Saudi Arabia), Cairo (Egypt), and Geneva (Switzerland) before reaching London.
The aircraft was a modern Boeing 720-040B (AP-AMH), carrying 127 passengers and crew. Among them were well-known journalists, international guests, representatives of travel agencies, and some of PIA’s finest staff. The most famous face on board was the iconic air hostess Momie Durrani, remembered in those days as “the face of PIA.”⚡ How the Crash Happened
As the aircraft neared Cairo International Airport, the pilot reported a problem with the flaps. The plane circled once and then attempted to land on Runway 34. But it failed to maintain height and struck the ground before the runway. The right wing immediately caught fire, and within moments the entire aircraft was engulfed in flames.
Out of all on board, only six survived. Everyone else — journalists, passengers, crew — perished forever. Among the victims was Huang Zhiqian, China’s chief aircraft designer.🕯️ The Story of Survivor Shaukat A. Mecklai
Among the six survivors was Mr. Shaukat A. Mecklai, who was traveling with his wife Bano. He recalled:
“It was to be our 23rd honeymoon. Bano was seated in first class while I was in economy at the back. As the plane prepared to land, I saw the right wing on fire — and then I blacked out.
When I regained consciousness, I found myself shouting my own name instead of calling for help. A young passenger, bleeding heavily himself, dragged me out. All around us were bodies and scattered luggage. My wife was among them. My heart turned to stone; I could not react. At that moment, I prayed to God that if I was given another chance at life, I would live for others — as if tomorrow would never come.”💔 The Scene After the Crash
The real agony began after the crash.
Mr. Mecklai said:
“We saw people running towards us from afar. We thought they were coming to help. They came shouting ‘Allahu Akbar’ — but instead of lifting the injured, they picked up luggage and bags and walked away.”
Rescue arrived five to six hours later. By then, many of the wounded who had been crying in pain had already died. The Egyptian authorities were completely unprepared for a disaster of this scale. Even the helicopter that came lacked stretchers.
The Aftermath
In the end, only six survived. The rest were laid to rest in the soil of Cairo. When the survivors returned to Karachi, the people received them as if they were miracles, welcoming them with unforgettable emotion.
For Shaukat A. Mecklai, it was the greatest turning point of his life. Suddenly a widower, and father of three young children, he chose to carry on with courage and faith. He lived a long life and eventually passed away in 2014 at the age of 95.
Even today, the story of Flight PK-705 teaches us a lasting lesson:
Life is fragile, and tomorrow is never guaranteed. In tragedy, the true test is whether humanity is shown — or whether the wounded are left helpless.
#memorylanesofpakistan #memories #PakistanHistory #Pakistan #aircrash #pakistaninternationalairlines #cairo #PIA

اتوار، 31 اگست، 2025

یونین کونسل سوہن کے نگینے لوگ،آتش نواز آتش

 یونین کونسل سوہن کے نگینے لوگ

خطہ پوٹھوار کے نامور شاعر ادیب اہل ادب اہل ذوق اہل علم اور محبت چاہت اور خلوص کے بے باک پیکر اور استادوں کے استاد باوا محمد آتش نواز مرحوم او مغفورآپ بالترتیب بھائی بلال اور بھائی خبیب کے والد اےگرامی مرحوم مغفور ہیں آج ہم آپ کو یونین کونسل سوہن کے نواحی گاؤں سمبلی سے تعلق رکھنے والی بندہ اے پرور ہستی سے اپ کا تعارف کرواتے ہیں بے شک باوا آتش نواز مرحوم کسی تعارف کے محتاج نہیں تھے میرے پاس وہ الفاظ تو نہیں جو باوا آتش نواز مرحوم کی شخصیت کا اخاطہ کرسکیں بس اتنا ہی کہوں گا کہ ایسے نایاب ہیرے بڑے خوش قسمت لوگوں کو اور اہل ادب لوگوں کو میسر ہوتے ہیں اور یہ ہمارے علاقے کی خوش قسمتی بھی تھی کہ ان جیسے مفکر اے اسلام اور تاریخ سے تعارف کروانے والی ہستی اللہ پاک نے سمبلی گاوں میں پیدا فرمائی تھی باوا آتش نواز مرحوم نے شاعری کے حوالے سے دین اور دنیا کی ترجمانی کرتے ہووے بے شمار کتابیں لکھی ہیں آپ کا اس دنیا فانی سے چلے جانے سے اہل علم اہل ادب کا ایک باب ہمیشہ کے لئے بند ہوگیا ہے اور اپ کے اس دنیا سے جانے کے بعد ایساخلاء پیدا ہوا ہے جس کو پر ہونےمیں بہت ٹائم لگے گا باوا آتش نواز مرحوم شاعری کے ساتھ سکول ٹیچر بھی تھے اور انہوں نے آپنے علاقے کے طالب علموں کو علم کی روشنی سے بھی منور فرمایا آپ نے آپنے علاقے کے لوگوں کی روحانی تربیت بہت احسن طریقے سے کی آپ سمبلی گاوں کے لوگوں کے لئے اور خاص او خاص یونین کونسل سوہن کے لئے کسی قدرت کے انمول تحفہ سے کم نہ تھے اور آپ لوگوں میں چھوٹی چھوٹی خوشیاں تقسیم کرنے والے اللہ کی طرف سے خاص عنایت تھے آپ جدہر بھی جاتے ہمیشہ آپ کے پاس لوگوں کا ہجوم لگارہتا تھا آپ نے ہمیشہ امن بھائی چارے اور آپس میں محبت پیار کا درس لوگوں کو دیا ہے آپ کے دونوں بیٹے بلال آتش اور خبیب آتش صاحب بھی بہت اچھے انسان ہیں ان سے اگر ملاقات ہوتو ان سے بھی باوا آتش نواز کی تصویر نظر آتی ہے

آپنے گاؤں اور ضلع کی پہچان تھے آپنے علاقے کے بےشمار نوجوانوں کی اہل ادب سے واقفیت بھی کروائی اور آپ کے کافی تعداد میں شاگرد بھی موجود ہیں جن کی شاعری پڑھ کر باوا آتش نواز مرحوم کی یاد تازہ ہوجاتی ہے جو آج تک باوا آتش نواز صاحب کو دعائیں دیتے ہیں باوا آتش نواز بہت ہی زیادہ مہمان نواز بھی تھے اگر کوئی شخص آپ کی صحبت میں بیٹھ جاتا تو اس کا واپس جانے کا دل نہیں کرتا اور آپ لوگوں کو ہمیشہ خق اور سچ کی تلقین فرماتے تھے۔
آپنے علاقے کی بندے کی خصوصی قدر کرتے اور تعاون کرتے ،نہایت ہی خوش اخلاق اور با کردار انسان تھے ۔
اللہ پاک حشر و قبر کی منازل آسان فرما کر جنت الفردوس میں جگہ عطا کرے اور اللہ تعالی ان کے لواحقین کو آپنے جدے امجد کی تقلید کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
دعا گو ایڈمن یوسی سوہن ہیلپ فاونڈیشن کمیٹی
وقاص گجر فرام ڈھوک بجاڑ چکوہا تحصیل دینہ ضلع جہلم
شاعر محمد نواز آتش
(نعت رسول مقبول)
ہتهیں کر کے آباد ویرانیاں نوں
تتیاں ریتاں نوں کر گلزار دتا
جوہری پتهر نوں بخشی جلا ایسی
کرکے شیشہ وچ رکھ بازار دتا
حق دے راہی نے ازل دے بهلیاں نوں
پل صراط تهیں پل وچ گزار دتا
آتش اس تے درود و سلام لکهاں
جس نے خزاں نو ں رنگ بہار دتا
شاعر نواز آتش (نعت رسول مقبول)
انسانیت دےسینےجو چبهدے سن
انهاں خاراں دا زہر اتار دتا
اپنے دست کریم دے نال دهو کے
آدمیت دا چہرہ نکهار دتا
ساری نفرت محبت وچ بدل کے تے
سینہ سڑیاں نوں صبر و قرار دتا
آتش اس تے درود و سلام لکهاں
جس نے خزاں نوں رنگ بہار دتا یہ تحریرفیس بک سے لیا گئی ہے

ہفتہ، 30 اگست، 2025

ارشاؔد حسین نمبل شریف کا چو مصرع کلام

ارشادؔ | کلام

شاعر: ارشاؔد حسین نمبل شریف براستہ دوبیرن کلاں ،کلرسیداں ،راولپنڈی

چھیڑ بکریاں دے جیڑا چاردا سی دو جہاناں دا سپہ سالار بنیا
دائی حلیمہ دی کُلی وچ رہوندا سی عرش فرش دا دیکھ سنگار بنیا
فاقے کٹدا تے مٹی تے سون والا بڑے بادشاہاں دا جا سردار بنیا
اک یتیم ارشاد امی لقب والاہر اک فیصلے دا خود مختار بنیا
 
کریں پیروی شیطان دی دن راتیں سوچ رب دے جہنان دا کیا رُتبہ
تینوں اج وی ملائک پئے یاد کردے اس خاکی انسان دا کیا رُتبہ
سوچ اس مقام لئ کملیا وے تیرے سازو سامان دا کیا رُتبہ
قسماں کھاویں تے نالے ایمان ویچیں دس ارشاد قرآن دا کیا رُتبہ
 
راہ عشق اُتے جہڑے ٹُر پیندے اپنی منزل توں ہر گز پہجدے نہیں
تعنے تعمت دے ہار گل پا لیندے چوٹ ہجر دی کھائے بناں سجدے نہیں
رہندے مست الست ہر حال اندر پلہ منہ تے پا کے کجدے نہیں
قیدی زلف دے جہڑے ارشاد سائیاں سولی پیار نی چہڑ چہڑ رجدے نہیں
 
میرا عشق پکا میرا عشق سچا نعرہ حق دا مارو میں نشے وچ ہاں
کہلیاں وچ مستی میری کی حستیت ساں آ جاؤ یارو میں نشے وچ ہاں
وچ نشے نہ ہوش گوا دیواں کھوٹے کھرے نتارو میں نشے وچ ہاں
چوہاں پنجاں دا خادم ارشاد سائیں حیدر حیدر پکارو میں نشے وچ ہاں
 
مُڑ مُڑ ظالماں نوں اے بلال آکھن تساں ہور ستاو میں نشے وچ ہاں
عشق نبی وچ مست مخمور ہے واں پہاویں جان جلاو میں نشے وچ ہاں
نامے نبی توں جان قربان میری زرباں کس کس لاوُ میں نشے وچ ہاں
اسدی ذات دا عاشق ارشاد پکا بیشک سولی چڑھاو میں نشے وچ ہاں

الیاس عازؔم کی شاعری

الیاس عازؔم | کلام

شاعر: الیاس عازؔم

موسم سندر سہانا سرور تک کے چاہت وصل دی سجناں کئی بار آئی اے
چشم نم سنگ عرضاں گزار دتیاں آہ لباں تک کرنے اظہار آئی اے
ٹٹ جائے نہ ننھی امید کملی حسرت دلے نال کرنے ادھار آئی اے
کلیاں بدلے لباس الیاس عازؔم توں وی مڑی آ مڑ بہار آئی اے
 
درد دل نہ ھوتا گر عشق اندر ظاہر ھوتا پھر کیسے پیار کیا ھے
کلیاں بن کے پھول نہ بکھر جاتیں ھوتی خزاں کے بعد بہار کیا ھے
گرد شمع نہ جلتے گر خاک پروانے جانم جانتے کیسے جانثار کیا ھے
عازؔم جلتے مزاروں پہ دیپ کیسے کیسے جانتا ساقی میخار کیا ھے
 
لڑ کھڑا نہ جائیں خیال دل کے کچھ تو بولو کہ دل کو یقیں آئے
کھولو کوئی تو گرہ پیار کی تم شاید وصل ھی باعث تسکین آئے
توڑو سوچ پہ پہرے حماقتوں کے کیا خبر کب وائے گل چین آئے
کب سے رکھی امید اک دید عاؔزم پھر سے یاد وہ چہرے حسین آئے
 
نہ تھی فکر اے درد فراق تیری مر جاتے ھم دید سے پہلے پہلے
نہ یہ ھوتا ملا ل دیوانگی کا سنبھل جاتے مزید سے پہلے پہلے
تم کیا جانو ھے جلوہء جنون کی سا دیکھے خواب کیا نیند سے پہلے پہلے
کب سے رکھی امید دید عاؔزم آ جاؤ ساجن تم عید سے پہلے پہلے
 
بیٹھے اخگر نشمین دی کرن راکھی تکو کینویں آجاڑیا چمن سارا
بکھرے پھل تے کلیاں مرجھا گئیاں ملیا خاک وچ غنچہ ء دھن سارا
کچھ تے خزاں کم بخت جمائے ڈیرے کر گئی زرد ایہہ تن و بدن سارا
عاؔزم حق نی گل سر عام کرساں اے ظالم لٹ کے کھا گئے وطن سارا

شاعر نعمان ناصؔح کی چو مصرع شاعری

نعمان ناصؔح | کلام

شاعر: نعمان ناصؔح

ابَرِ کوہسار نوں ویکھ لنگدا لنگیاں رُتاں سُہانیاں یاد آئیاں
جاں میں کوئی بُریدہ اَنگُشت ویکھی مینوں قاتل جوانیاں یاد آئیاں
آئینہ، زُلف سُلجھانے لئی ویکھیا تے خِیرہ چَشم تابانیاں یاد آئیاں
ناصحؔ خاک دَر خاک ہموار ہویا مَحشر خَیز طُغیانیاں یاد آئیاں
 
دستِ جرَّاح دَر دیکھ سوزَن نوکِ مِژگاں مِلانیاں یاد آئیاں
نَظر پئے گئی جِسدم زنجیراں اُتے گُلُو گِیر گِرانِیاں یاد آئیاں
کسے طُرَّہء طَرّار نوں کھولیا جاں مُشکوں،رات دیاں رانِیاں یاد آئیاں
اُٹھدے ویکھ ناصح آتشِیں شُعلے مینوں آہ و فُغانیاں یاد آئیاں
 
سُتے دَرد زمانے دے جاگ اُٹھے گَلُوں گَلاں پُرانِیاں یاد آئیاں
لاغَر پئیاں صُعُوبَتاں ویکھیاں جاں سِرہ اُتے اُٹھانِیاں یاد آئیاں
اندا خال مَشّاطَہ نوں ویکھیا تے مینوں مُورَتاں بنانِیاں یاد آئیاں
اَتھرُوں شَبنَم دے پُھلاں تے ویکھ ناصحؔ پل پل گوہر فشانِیاں یاد آئیاں
 
غماں نیں جاں غمگین کِیتا مینوں عِشرَت سامانیاں یاد آئیاں
چمنِ زِیست دی ویکھ وِیرانِیاں نوں دِیمک زَدہ گُھمّانیاں یاد آئیاں
میری جَنِّت دی بیٹِھیں دہلِیز اُتے لیکے پُھل دِیوانیاں یاد آئیاں
ناصحؔ ویکھیا جاں سنگِ در تائیں لَہُو رَنگ پَیشانِیاں یاد آئیاں
 
خُون سُکیا جاں، رَگاں میریاں وچ گَرم جوش روانیاں یاد آئیاں
کُشتَہء چوکڑ غزال جاں ویکھیا کوئی مینوں چالاں مَستانیاں یاد آئیاں
تَسّے عہدِ پارِینہ دے لب ویکھے میریاں تِشنہ دہانیاں یاد آئیاں
کُوچہء یار سیں ناصحؔ جد گُزر ہویا مینوں سَرگردانیاں یاد آئیاں
 
تلخی سفر دی چہرے توں ظاہر ہوندی رُخِ سحر بر رات دی تھکن ہیوے
کر سکیا نہیں کدے اظہار، تاں ہی طبع اُتے جذبات دی تھکن ہیوے
ایہدے ہوندیوں ہویا خوار میں بھی ساہ ساہ حیات دی تھکن ہیوے
میریاں اکھاں دے وچ نعمان ناصحؔ میرے تلخ حالات دی تھکن ہیوے

عاصم غاؔزی کا چو مصرع کلام

عاصم غاؔزی | کلام

شاعر: عاصم غاؔزی (موضع بناہل) شاگردِ خاص: بھٹی عدیل عابرؔ

جے کد کار نہ کارِ ثواب ہوئے عالم فاضل آکھوا کے کی لینڑاں
ہووے من نہ جے کد صاف اندروں سیرت صورت چمکا کے کی لینڑاں
جیکر پرکھ حلال حرام دی نہی خالی مال بنا کے کی لینڑاں
جہڑے منزل توں کرن گمراہ غاؔزی ایسے سُخن سنا کے کی لینڑاں
 
نیکی بدی دی پُختہ پہچان کر کے نیکی کول کماویں تے سب کجھ ھے
اپنے من نوں رکھ کے صاف یارا اپنا آپ بناویں تے سب کجھ ھے
حسد بغض عناد دے دور اندر رسمِ انس نبھاویں تے سب کجھ ھے
شمع عشق دی بال کے یار غاؔزی نعرہ حق دا لگاویں تے سب کجھ ھے
 
عظیم الشان ھے ذات خدا تیری بحر و بر وچ لامحدود ایں توں
توں ایں قادر تے قُدرت کمال تیری یا رحمٰن رحیم ودٶد ایں توں
نوری ناری پئے حمد بیان کردے ہر ذی روح دا مالک معبود ایں توں
بندے لوڑ رے تینوں ہر تھاں غاؔزی جبکہ بندیاں اندر موجود ایں توں

عرفان عاطفؔ کا چو مصرع کلام

عرفان عاطفؔ | کلام

شاعر: عرفان عاطفؔ

رکھیاں پردہ توں پردہ نشین میرا تیرا بڑا احسان تیری مہربانی
میں گنہگار آں پاپی زمانیاں داتوں ایں بڑا مہربان تیری مہربانی
دو گز جگہ توں کوچے جانان بخشی توں ایں لا مکاں تیری مہربانی
مل جائے راہء نجات عرفان عاؔطف مالک دونویں جہان تیری مہربانی
 
خطا وار میں پتلہ خطا دا آں کریں معاف خطا تیری مہربانی
تیریاں نعمتاں دا نئیں شمار کوئی توں کریں عطا تیری مہربانی
پورا اتراں نہ تیرے فرمان اندر میں بندہ گمراہ تیری مہربانی
سایہ رحمت ناں سدا عرفان عاؔطف رکھیاں میرے خدا تیری مہربانی
 
ہو جائے حاضری درء حبیب اتے مولا کر اسباب تیری مہربانی
چماں چاہت سنگ روضے دیاں جالیاں نوں ہووے ختم اضطراب تیری مہربانی
ملے دید نی بھیک از راہ ء مولا ہو جائے پورا اے خاب تیری مہربانی
بن جائے مدفن وچ طیبہ عرفان عاؔطف مالک یوم ء حساب تیری مہربانی
 
مولا ای کوئی کر ے سبب ایسا، منصف جگ وچ دل دا صاف چاہی ناں
حق سچ دا ہووے قانون لاگو، چوراں ڈاکواں نوں نہی کرنا معاف چاہی ناں
ہووے ظلم نہ کسے غریب اتے، ہونڑاں فیصلہ بلکل شفاف چاہی ناں
منگدی قوم دعاواں عرفان عاطؔف، عمر فاروق جیا ہونڑاں انصاف چاہی ناں
 
اصل مرداں دی خاص پہچان ہوندی، ویکھ کسے مجبور نوں ہسدے نئیں
گل حق نی اتے اوہ بول پیندے، ایویں تیر کمان وچ کسدے نئیں
کردے ڈٹ کے مقابلہ شیر وانگوں، چہھوٹھے جال شکاری وچ پھسدے نئیں
بیشک جان تو جانڑ عرفان عاؔطف، کدی چھوڑ میدان اوہ نسدے نئیں
 
جس دے پہراں ہٹھ رکھی خدا جنت، میں کہہ صفتاں سناواں نے ماں دیاں
جس نوں ویکھیاں ملدا سکون دل نوں، سر تے ٹھنڈیاں چھانواں نے ماں دیاں
ہو کے خوش جو بولے زبان وچوں، سندا رب صدواں نے ماں دیاں
نہ رے غم پریشانی عرفان عاؔطف، تار دیندیاں دعاواں نے ماں دیاں

ڈاکٹر ضیاء الرحمن رافؔع کا چو مصرع کلام

ڈاکٹر ضیاء الرحمن رافؔع | کلام

شاعر: ڈاکٹر ضیاء الرحمن رافؔع

قلم حمدوثنا دے لایق نہ ہی نہ پاکیزہ تاثیر زبان وچ ھے
نہ ہی لفظ موجود گویائی اندر جو تحریر پاک قرآن وچ ھے
اسنوں خوف کی دوزخ دی نار دا اے رب جیدے تخیل حسان وچ ھے
رافؔع من دے شیشے وچ مار چاتی لامکان والا ایس مکان وچ ھے
 
دنیا آکھدی اہدا در کعبہ میں آکھاں او نقش خوبان وچ ھے
شجروہجر اندر رنگ گل اندر جلوہ گر او منظر مستان وچ ھے
ھوے ساقی میخانہ یا بت خانہ حسن لافانی پوشیدہ جہان وچ ھے
جھکی جدوں جبین تے ویکھیا اے رافؔع ریندا او دل دے مکان وچ ھے
 
جے نہ رب نوں مطلوب معبوب ھوندا کائنات دے وجود دی لوڑ کی سی
رکھدا کون جبین محراب والی دست بستہ سجود دی لوڑ کی سی
نوع بشر نہ باعث تکریم ھوندی ارض و سماء وچ جمود دی لوڑ کی سی
جے نہ پیدا محمد دی ذات ھوندی رافؔع آدم دے نمود دی لوڑ کی سی
 
ساقی ویکھ میخانے دا کھول بوا بیٹھا تشنہ میخار چروکنا اے
نادم دل نادان دیاں حسرتاں تے رکھدا نم بیزار چروکنا اے
کر مہربانی معاف قصور کر دے تڑپ رہیا خطا کار چروکنا اے
رافعؔ جام سفال نوں لے خالی منگدا خیر دیدار چروکنا اے
 
اٹھا پردہ رخسار صنم اتوں ویکھ قدرت خدا دی کی کہندی
اشارہ جنبش مژگاں دا کی آکھے نوک تیغ فناء دی کی کہندی
ایس تشنہ آوارہ خیال اندر اداے شوخ جدا دی کی کہندی
طبع رکھ رافعؔ گلچیں والی تلون مزاجی وفاء دی کی کہندی
 
جاندی جاندی اے رت بہار مڑ کے نال فیر کوی یاد پرانی لے آی
جتھے سنگم سے عمر نوخیز ٹٹیا اتھے کھڑی دے پل روانی لے آی
آساں دل وچ جاگیاں وصل دیاں کوچے یار ول سر گردانی لے أی
کھاندی ٹھوکراں امید وفاء رافؔع کیڑے موڑ تے موڑ زندگانی لے آی

نیاز جوشؔی کا چو مصرع کلام

نیاز جوشؔی | کلام

شاعر: نیاز جوشؔی

آس پاس وی رہ کے دلدار میرے جے توں کول نہ آہیں تے تیری مرضی
کریں نت جفا توں نال میرے ایڈے ستم کماہیں تے تیری مرضی
رولیں وچ ہجران جاناں مہنیوں مہینوں پاگل بناہیں تے تیری مرضی
دیویں وصل یا مہنیوں نیاز جوشؔی دوروں دوروں تڑپاہیں تے تیری مرضی
 
گل تیرے انصاف تے یار چھوڑی کریں شاد ناشاد اے تیری مرضی
تیرے در تے کردا صدا رہساں جے نہ سنڑہیں فریاد تے تیری مرضی
کریں الفت نی نظر رضا تیری یا فیر ستم جلاد اے تیری مرضی
رکھیں زلف ناں مینوں اسیر جوشؔی پانویں کریں آزاد اے تیری مرضی
 
کرماں والے دا رہیا اے کرم میں تے دیتی ہونیڑ جس رسوائی میری
چاہن والیاں دا شکر اے لاکھ واری کیتی جگ وچ جہناں پزیرائی میری
مہنیوں خوف کہیڑا انھاں فاسقاں دا حالت تک لی اس خدائی میری
رب بخشایا ہور عروج جوشؔی ویری سوچدے رہے تباہی میری
 
دینڑاں دل سی تینوں میں دے دیتا میرا دل جے توڑیں تے تیری مرضی
لا کے توڑ نبھائے تے شکرایہ ای ادھ راہ وچ چھوڑیں تے تیری مرضی
آکھے میریاں رقیباں نے لگ ساجن رشتے غیراں نال جوڑیں تے تیری مرضی
رہساں عمر بھر تیرا نیاز جوشی سنگ نویں جے لوڑیں تے تیری مرضی
 
رب رسول دا ناں لے کے ہر بزم وچ ہوندی ابتدا میری
مینوں خوف کہیڑا انھاں فاسقاں دا کردی ماں نت رہندی دعا میری
اتے رب نی ذات یقین پکا سونیڑا کرم کرسی ایہو چاہ میری
لایا رج کے ویریاں زور جوشی کنڈ لغنڑاں نہ دیتی خدا میری
 
جس گل تھیں ہووے اے دل آزاری ایسی گل نوں کرنا تحریر نی آں
ہاں کنگلا تے مہاڑا حقیر عاجز پیر کامل نوں مندا بے پیر نی آں
کنجل عشق اندر پھسی جان میری آکھاں کیوں جے عشق آسیر نی آں
زندہ میرا ضمیر نیاز جوشی بیشک آں غریب بے ضمیر نی آں

آپکا شکریا

مشہور اشاعتیں

دوستی کریں۔