علاقہ نلہ اٹک کا قدیم ترین گاؤں کوٹ سونڈکی
ساون بھادوں کے برساتی موسم میں بھنگ اور گاجر بوٹی سے چھپی ہوئی ہوئی قبروں پر اپنے دور کا عظیم محقق اور جغرافیہ دان راجہ نور محمد نظامی دعائے مغفرت کے لیئے ہاتھ اٹھائے کھڑا تھا بعد از دعا میں نے پوچھا کہ آپ کے تجربے کے مطابق یہ قبور کتنی پرانی ہیں
پرسوچ نظروں سے میری طرف دیکھنے کے بعد کہنے لگے کہ یہ قبریں مغلیہ دور سے پہلے کے فن تعمیر کی عکاس ہیں قبروں پر کوئی کتبہ اور تحریر درج نہیں ہے لیکن پتھروں اور چونے کی مدد سے ایک چوکور چبوترے پر دو بڑی اور چار چھوٹی قبریں ہیں جو دیکھنے میں اپنے دور کی کسی صاحب جاہ وحشمت اور شاہی خاندان کی قبریں تھیں
راجہ نور محمد نظامی صاحب کا تعلق تحصیل حسن ابدال کے ایک چھوٹے مگر تاریخی گاؤں بھوئی گاڑ سے ہے
اور ایک بہت بڑی لائبریری جس میں تقریبا 22سے23ہزار کتابیں اور ہزاروں کی تعداد میں قدیم نوادرات ذاتی کوششوں سے جمع کیئے ہوئے ہیں تاریخ اور آثارقدیمہ پر راجہ صاحب ایک اتھارٹی رکھتے ہیں اور مشاہداتی تجربہ اتنا عمیق ہے کہ کسی چیز کو بغور دیکھ کر اندازے سے بتا سکتے ہیں کہ اس قدیم پتھر، عمارت، برتن کی طبعی عمر کتنی ہے
سب سے پہلے راجہ نور محمد صاحب کا شکریہ کہ میرے جواں سالہ بھتیجے کی ناگہانی موت اور دکھ کی گھڑیوں میں فاتحہ خونی کے لیئے میرے گھر آمد کی اللہ جزائے خیر دے
بعد از دعا درود دن کا کھانا کھانے کے بعد دو موٹر سائیکلوں اور چار افراد یعنی بقلم خود،سید محمود، راجہ نور محمد نظامی اور ان کا پسر راجہ ساریہ ہم نکل پڑے علاقہ گردی کے لیئے
سب سے پہلے تو علاقے کوٹ سونڈکی کی عظیم روحانی شخصیت پیر محبت شاہ کے دربار پر فاتحہ خوانی کی اور ساتھ ملحقہ قبرستان میں خداداد خان عرف دادؤ خان کی قبر پر بھی فاتحہ خوانی کی اور درابار سے ملحقہ سینکڑوں کنال رقبہ جہاں پھلاہی کے سینکڑوں سال قدیم اور قد آور درختوں کا جنگل اور درمیان سے گزرتی ندی ،قدیمی اور وسیع قبرستان ہے کے بارے میں راجہ صاحب نے اپنی راۓ دی کہ اس جگہ کا محل وقوع بتا رہا ہے کہ یہاں قدیم دور میں قافلوں اور لشکروں کا پڑاؤ رہا ہو گا جب گھوڑےاونٹ اور خچر بار برداری کے لیئے استعمال ہوتے تھے تو ہر کوٹ (یعنی چھوٹا قلعہ)یا بڑی آبادی کے قرب جوار میں ایک وسیع قطعہ اراضی جانوروں کے چرنے اور آرام کرنے کے لیئے مختص کیا جاتا تھا اور وہاں پر پانی کا بندوبست بھی کیا جاتا تھا تو یہ تمام لوازمات یہاں پر موجود ہیں تو یہ جگہ لازما پڑاؤ رہی ہوگی اور خداد خان عرف دادؤخان کے زمانے تک پڑاؤ کی ضروریات نہیں رہی تھیں تو یہ رقبہ قبرستان کے لیئے مختص کر دیا گیا ہو گا 

یہاں سے آگے ہم کو گ پہنچے کوٹ گاؤں کے سب سے قدیمی قرستان میں جو کہ گاؤں کے مغرب میں بر لب سڑک ہے نام تو قبرستان ہے لیکن اتنا پرانا ہو چکا ہے کہ اب تو قبروں کے کتبے خال خال ہی نظر آتے ہیں ، قبرستان پر ڈھور ڈنگر پھر رہے تھے ایک دو سوزوکیاں قبرستان کو سواری اڈہ بنائے کھڑی تھیں دو تین جگہ گوبر کے ڈھیر بھی قرستان کے اپر ہی بنے تھے اور کہیں کہیں ریت اور کرش کے ڈھیر بھی پڑے ہوئے تھے،اور باقی سارا قرستان جھاڑ جنگاڑ سے اٹا پڑا تھے اور خستہ حال قبریں چیخ چیخ کر کہ رہی تھیں کہ دنیا فانی ہے
میں نظامی صاحب کو لیئے وسیع و عریض رقبے پر پھیلےقرستان میں بچ جانے والی والی ان پختہ قبور پر لے گیا جن کو دیکھ راجہ صاحب نے آگاہ کیا کہ ان قبور کو فن تعمیر سلاطین دہلی کے مسلم دور حکومت کا ہے جو مغلوں سے پہلے ہندوستان کے حکمران تھے
تاریخ سر زمین اٹک میں لکھا ہے کہ کوٹ (یعنی چھوٹا قلعہ )کوعلاول خان نے آباد کیا کیا تھا تاہم تاریخ یہ بتانے سے قاصر ہے کہ کس سن عیسوی میں اس گاؤں کی بنیاد رکھی گئی نظامی صاحب نے اپنا خیال پیش کیا کہ ممکنہ طور پر یہ قبور علاول خان اور اُن کے خاندان کی ہو سکتی ہیں
ہماری اگلی منزل ٹھہری خانوں والی مسجد جو کہ خدادا خان عرف دادؤ خان نے اپنی عالیشان بیٹھک کے ملحق تعمیر کروائی تھی جو آج بھی اپنے منقش لکڑی کے دروازے پکی اینٹوں کے فرش اور پتھر کی بنی موٹی دیوروں سے عظمت رفتہ کی داستان سنا رہی تھی



نظامی صاحب ہر وقت قدیم نوادرات کی کھوج میں رہتے ہیں مسجد سے نکلتے ہی ساتھ میں موجود شوکت لوہار کی دوکان پر رک نظامی صاحب نے پوچھا کہ کہ کیا آپ لوگوں کے پاس کوئی قدیمی چیز پڑی ہوئی ہے
تو دوکاندار کہنے لگا کہ نہیں ہم تو درانتی ترنگل وغیرہ بناتے ہیں
پاس میں ہی بیٹھے اختر نامی شخص کہنے لگا کہ میرے گھر میں ایک بہت بڑی پتھر کی سل پڑی ہوئی ہے اور اس کے اوپر کچھ لکھا ہوا ہے نظامی صاحب اس کے ساتھ چلے گئے اور واپس خالی ہاتھ آئے یکم چہرے کی بشاشت کسی کامیابی کی نوید سنا رہی تھی وہ موبائل سے اس پتھر پر کندہ تحریر کی تصویر لے کر آئے تھے
کہانی کچھ یوں تھی کہ جب پنجاب پر سکھوں کا قبضہ ہوا تو باہتر کے کٹھڑ سردار فتح خان نے سکھوں کا بھر پور ساتھ دیا اور بدلے میں چار موضع جاگیر ٹھیکے پر حاصل کر لی جس میں باہتر بھگوی،کوٹ سعد اللہ،اور لنڈی کے موضع جات شامل تھے
یہاں پر فتح خان نے ایک عالیشان اور وسیع و عریض محل بنوایا تھا جو کہ کنجور کے پتھروں کو تراش کر بلاک کی شکل دے کر چیڑ کے شہتیر اور بالا پھٹی کی چھت سے مکمل کیا تھا 1880 میں فتح خان اور1894میں دادؤخان کی وفات ہو گئی اور دادؤ خان لاولد فوت ہوا تو اس کی تمام جائیداد کے وارث اس بھتیجے بنے جو کہ باہتر میں رہائش پذیر تھے اور یوں مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے وہ عظیم الشان عمارت ملبے کا ڈھیر بنی اور کوئی والی وارث نہ ہونے کی وجہ سے زمانے کی دست برد کا شکار ہو گئی اور اس پتھر کی تختی پر اس کے بانی فتح خان اور تکمیل دادؤخان کے ہاتھوں ہوئی کے الفاظ فارسی زبان میں کندہ ہیں اس عالیشان عمارت کی کچھ تصاؤیر میرے پاس محفوظ میں جو میں پوسٹ کے ساتھ لگا دوں گا
نظامی صاحب زندگی میں پہلی دفعہ کوٹ سونڈکی میں آئے تھے میری بھی چھٹی کم تھی اور میں اپنے علاقے کی قدیم تاریخ کی کھوج میں کافی دلچسپی رکھتا تھا تو میں نے راجہ صاحب کو لنڈی کا قدیم چشمہ وزٹ کروایا اور پھر ہم چل پڑے گڑھی بابا کے مزار پر
گڑھی کو جانے والے کچے اور ہچکولے کھاتے راست پر ایک کلو میٹر کے سفر کے بعد دربار پر پہنچے اور وہاں گھوم پھر کر راجہ صاحب نے بتایا کہ اس مقام پر آج سے تین ہزار قبل گڑھی تعمیر کی گئے تھی گڑھی کا مطلب بھی چھوٹا قلعہ ہوتا ہے اور یہ مقام پر ایک ندی اور ایک برساتی نالے کا ملاپ ہوتا ہے اور ان کے سنگم پر یہ گڑھی واقع تھی 

قدیم رویات کی روشنی میں اس گڑھی کے جنوبی جانب مسلم دورمیں ایک شہر نور پور کے نام سے آباد تھا جو کہ یہاں کے قدیم قبیلے گوجروں کا تھا جو نامعلوم وجوہات کی بنا پر اجڑناشروع ہوا اور آہستہ آہستہ آبادی کم ہوتی گئی اور اس ہی وجہ سے اس کا نام لنڈی مشہور ہو گیا اور چند گھروں پر مشتمل یہ آبادی آج بھی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے اور ان کا ایکڑوں کے حساب سے چھوڑا ہوا قبرستان یہاں پر موجود ہے

تحریر
زمرد علوی کوٹ سونڈکی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا