* شوپن ہاور کا فلسفہ اور جدید سائنس**
کیا کبھی آپ نے یہ محسوس کیا ہے کہ زیادہ سمجھدار ہونا کبھی کبھی سزا کیوں محسوس ہوتا ہے؟ اکثر اوقات حقیقی طور پر ذہین لوگ خود کو اکیلا پاتے ہیں جبکہ معمولی یا اوسط ذہانت کے حامل افراد کی سماجی زندگی زیادہ خوشگوار گزر رہی ہوتی ہے۔ اس سوال کا جواب فلسفی آرتھر شوپن ہاور نے صدیوں پہلے ہی دے دیا تھا جسے آج کی جدید سائنس بھی ثابت کر رہی ہے۔ شوپن ہاور جسے تاریخ کا سب سے کڑوا مگر سچا فلسفی کہا جاتا ہے، نے کہا تھا کہ "ذہانت ایک آئینے کی مانند ہے جو سامنے والے کو اس کا سچ دکھا دیتی ہے، وہ سچ جسے وہ خود بھی دیکھنا نہیں چاہتا"۔
لوگوں کا خیال ہے کہ ذہین افراد اس لیے اکیلے ہوتے ہیں کیونکہ وہ سماجی طور پر اناڑی ہوتے ہیں لیکن شوپن ہاور نے اس بات کو مزید گہرائی سے سمجھا۔ اس نے کہا کہ کسی ذہین انسان کو زیادہ بولنے کی ضرورت نہیں پڑتی, اس کی موجودگی ہی کافی ہوتی ہے۔ وہ بس کمرے میں داخل ہوتا ہے اور باقی لوگ خود بخود بے چین ہو جاتے ہیں جیسے کسی نے ان کے اندر کی حقیقت کو کھول دیا ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی اپنا سچ دیکھنا نہیں چاہتا۔ جب پیسہ ہوتا ہے تو لوگ جھکتے ہیں، خوبصورتی پر لوگ مرتے ہیں، طاقت پر لوگ عزت دیتے ہیں مگر ذہانت سے لوگ جلتے ہیں۔ یہ حسد وہ کسی کو بتاتے نہیں بلکہ خود سے بھی چھپا کر رکھتے ہیں۔
شوپن ہاور نے دیکھا کہ یہ ایک ایسا نمونہ ہے جو بار بار دہرایا جاتا ہے: جتنا کوئی شخص گہرائی میں سوچتا ہے، لوگ اسے لطیف طریقوں سے سائیڈ لائن کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ وہ بدتمیز نہیں ہوتا، نہ ہی انا دکھاتا ہے، پھر بھی اس کی موجودگی سے لوگ خود کو چھوٹا محسوس کرنے لگتے ہیں۔
جدید سائنس کے مطابق آج کی سوشل سائیکالوجی اور برین ریسرچ شوپن ہاور کی باتوں کی تصدیق کر رہی ہے۔ مطالعہ بتاتا ہے کہ جب کوئی انسان خود کو کسی سے کم ذہین محسوس کرتا ہے تو اس کے دماغ کے وہی حصے فعال ہوتے ہیں جو جسمانی درد کی صورت میں ہوتے ہیں۔ یعنی جب کوئی کہتا ہے کہ "اس نے میری انا کو ٹھیس پہنچائی" تو یہ محض ایک بات نہیں ہوتی بلکہ دماغی سطح پر یہ لفظی طور پر "درد" ہوتا ہے۔ 2021 کی ایک تحقیق نے تو یہ بھی پایا کہ جب ہم کسی بہت ہوشیار شخص کے سامنے ہوتے ہیں تو ہمارا دماغ اسے "خطرے" کی طرح پروسیس کرتا ہے۔ دماغ میں ایک حصہ جسے *"امیگڈالا (amygdala)" کہتے ہیں، خطرے کا الارم بجاتا ہے۔ جب سامنے کوئی ایسا شخص ہو جو واضح طور پر ہم سے زیادہ ذہین ہو تو امیگڈالا فوراً فعال ہو جاتا ہے، جیسے کوئی حقیقی خطرہ آ گیا ہو۔ اسی لیے لوگ سوچے سمجھے بغیر دفاعی ہو جاتے ہیں۔ اسٹینفورڈ کی ایک اور تحقیق کے مطابق اگر آپ اس ذہین شخص کے ساتھ اکیلے ہیں تو یہ ردعمل ہلکا ہوتا ہے لیکن جیسے ہی کمرے میں مزید لوگ آ جائیں یہ "انا" اور زیادہ جاگ جاتی ہے کیونکہ انسان اکیلے کی بجائے عوامی طور پر اپنا اسٹیٹس بچانا چاہتا ہے۔
شوپن ہاور نے یہ بھی سمجھا کہ یہ محض خودکار ردعمل نہیں ہیں۔ انسان اسے شعوری طور پر بھی محسوس کرتا ہے اور یہیں سے ایک بڑا کڑوا سچ سامنے آتا ہے: لوگ کسی ذہین شخص سے یوں ہی حسد نہیں کرتے؛ ذہانت خود ایک جذباتی محرک (emotional trigger) بن جاتی ہے۔ یہ انسان کے اندر کچھ ایسا چھیڑ دیتی ہے جسے وہ خود سے بھی چھپا کر رکھتے ہیں۔ جب کوئی ذہین شخص کسی گفتگو میں شامل ہوتا ہے تو باقی سب لوگ خود بخود اپنا موازنہ کرنے لگتے ہیں، چاہے وہ ایسا کرنا چاہیں یا نہ چاہیں۔ اکثر تو بس اس کی خاموش موجودگی ہی لوگوں کو یہ محسوس کراتی ہے جیسے وہ انہیں جج کر رہا ہو۔ سب سے ستم ظریفی یہ ہے کہ جتنا کوئی شخص سچ میں سمجھدار ہوتا ہے وہ اتنا ہی کم دوسروں کو جج کرتا ہے۔
شوپن ہاور نے یہ بھی دیکھا کہ ذہانت مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے مسترد ہونے کا سبب بنتی ہے مگر دونوں کے لیے یہ ردعمل مختلف طریقوں سے ظاہر ہوتا ہے۔ ذہین مردوں کو یا تو مقابلہ ملتا ہے یا انہیں آہستہ آہستہ گروپ سے نکال دیا جاتا ہے لیکن ذہین عورتوں کے لیے ردعمل ایک اور سطح کی کشیدگی بن جاتا ہے جسے شوپن ہاور نے "ڈبل بائنڈ double bind" کہا۔ انہیں صرف سمجھدار ہونے کی نہیں بلکہ اس "ناقابل دید سماجی قید" کو توڑنے کی بھی سزا ملتی ہے جس میں لکھا ہوتا ہے کہ "ایک عورت کو ایسا ہونا چاہیے۔ معاشرہ انہیں ایک انتخاب دیتا ہے: یا تو "پسندیدہ" بنو یا "قابل احترام"۔ عورتوں کی خوبصورتی کو کھلے عام سراہا جاتا ہے مگر ان کی ذہانت کو نہیں۔ شوپن ہاور نے ایک دردناک سچ کہا تھا کہ اگر کوئی عورت خوبصورت بھی ہے اور ذہین بھی، تو یہ دونوں خصوصیات مل کر اسے اور زیادہ اکیلا بنا دیتی ہیں کیونکہ خوبصورتی لوگوں کو اوپر سے متوجہ کرتی ہے لیکن ذہانت وہیں سے لوگوں کو دور بھی کر دیتی ہے۔
جدید تحقیق بھی یہی دکھا رہی ہے: ذہین عورتیں اکثر اپنی صلاحیتوں کو چھپا لیتی ہیں، خاص کر سماجی محفلوں میں، کیونکہ ان پر ایسا دباؤ ہوتا ہے جو مردوں پر اتنا نہیں ہوتا۔ ماہرین نفسیات اسے "کمپیٹنس لائیکیبلٹی ٹریڈ آف" (Competence-Likability Trade-off) کہتے ہیں، یعنی جتنی کوئی عورت زیادہ اسمارٹ یا قابل نظر آئے گی اتنی ہی کم پسندیدہ سمجھی جاتی ہے۔
شوپن ہاور نے واضح کیا کہ اوسطیت لوگوں کو کیوں آرام دیتی ہے۔ یہ ایک گرم کمبل کی طرح ہے جو یہ احساس دلاتا ہے، "فکر مت کرو، جیسے ہو ویسے ہی ٹھیک ہو"۔ اوسط سوچ رکھنے والے لوگ کبھی کسی کی انا کو ٹھیس نہیں پہنچاتے اور نہ ہی یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ "شاید تمہیں بھی تھوڑا اور بڑھنا چاہیے" بلکہ وہ آپ کو اس بات کی تصدیق دیتے ہیں کہ آپ کی سوچ بھی کافی ہے۔
جب آپ کسی عام گروپ کی گفتگو سنتے ہیں تو موضوعات کیا ہوتے ہیں؟ سادہ باتیں، ہنسی مذاق، کچھ بھی ایسا نہیں جو تھوڑی سوچ مانگے کیونکہ سطحی گفتگو ہی آرام دہ ہوتی ہے۔ لیکن جیسے ہی کوئی شخص گہری یا پیچیدہ بات کرتا ہے کمرے میں خاموشی چھا جاتی ہے اور ماحول بھاری ہو جاتا ہے۔ شوپن ہاور نے یہ پیٹرن ہر شعبے میں دیکھا تھا: اوسط درجے کا فنکار گیلری میں نظر آتا ہے لیکن باکمال فنکار باہر کھڑا رہتا ہے۔ عام مصنف ٹاپ سیلر بن جاتا ہے لیکن گہرا مفکر ان پڑھ رہتا ہے۔ ایسا اس لیے نہیں کہ لوگ فرق سمجھ نہیں پاتے، بلکہ اس لیے کہ اوسطیت کبھی کسی کی حقیقت کو چیلنج نہیں کرتی، جب کہ ذہانت کرتی ہے۔ ذہانت وہ آئینہ ہے جو یاد دلاتا ہے کہ "تم بھی تھوڑا اور سوچ سکتے تھے، مگر تمہیں آسان راستہ چاہیے تھا۔ اور اسی غیر آرام دہ حقیقت سے لوگ بچتے ہیں۔
آج کی دنیا میں بھی شوپن ہاور کے تمام پیٹرن نئے ناموں کے ساتھ دہرائے جا رہے ہیں۔ ورک پلیس میں "کلچر فٹ" اور "ایموشنل انٹیلیجنس" جیسے نام استعمال ہوتے ہیں۔ لیکن "ناٹ اے کلچر فٹ" کا اصل مطلب اکثر یہ ہوتا ہے کہ وہ شخص دوسروں کو ذہنی طور پر بے چین کر دیتا ہے۔ سماجی میڈیا پر بھی گہری باتیں اکثر نظر انداز کر دی جاتی ہیں اور سادہ، ہاں میں ہاں ملانے والی چیزیں وائرل ہو جاتی ہیں، کیونکہ گہرائی سوچنے پر مجبور کرتی ہے اور سوچنے سے بے چینی پیدا ہوتی ہے۔
اس پورے پیٹرن میں سب سے عجیب بات یہ ہے کہ معاشرے کو ذہانت چاہیے بھی اور اسی سے سب سے زیادہ ڈر بھی لگتا ہے۔ شوپن ہاور نے اسے "حتمی سماجی تضاد" کہا تھا۔ ہر معاشرہ اپنے نابغہ روزگار افراد کو ان کے مرنے کے بعد سراہتا ہے۔ نیوٹن، آئن سٹائن، کیوری کو آج عزت کی بلندیوں پر رکھا جاتا ہے، لیکن جب وہ زندہ تھے تو نیوٹن اکیلے رہتے تھے، آئن سٹائن کو اس کے اساتذہ نے "بے وقوف" کہا تھا، اور کیوری کو پوری سائنسی دنیا نے مسترد کر دیا تھا۔ یہ تضاد ہر جگہ نظر آتا ہے: کمپنیاں کہتی ہیں کہ انہیں جدت چاہیے، لیکن جیسے ہی کوئی نظام کو چیلنج کرتا ہے، اسے سائیڈ کر دیا جاتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ ذہانت کو کیسے نیویگیٹ کریں؟ لیکن اس پیٹرن کو سمجھنے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کو ہمیشہ اکیلا محسوس کرنا پڑے گا۔ شوپن ہاور صرف مسئلہ نہیں بتا رہا تھا وہ آپ کو ایک طریقہ بھی دکھا رہا تھا:
1. سمجھیں کہ آپ غلط نہیں ہیں: اگر آپ ذہین ہیں، تو آپ کوئی غلطی نہیں کر رہے۔ لوگوں کا ردعمل آپ سے نہیں ہوتا، یہ بس ایک قدرتی سماجی پیٹرن ہے۔ یہ بات سمجھنے سے ہی بہت سا ذہنی بوجھ اتر جاتا ہے۔
2. ہر کمرے کو پڑھنا سیکھیں: ہر جگہ گہری باتیں کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اپنی سب سے پیچیدہ سوچ انہیں دیں جو اسے سچ میں سمجھ اور سراہ سکیں۔
3. اپنا قبیلہ تلاش کریں: شوپن ہاور نے خود دیکھا تھا کہ حقیقی ذہین لوگ بڑے گروپس میں نہیں رہتے، وہ چھوٹے مگر گہرے تعلقات والے حلقوں میں پروان چڑھتے ہیں۔ آج کے انٹرنیٹ والے دور میں ایسے دماغ ڈھونڈنا پہلے سے کہیں آسان ہو گیا ہے۔ آپ کو پوری دنیا سے توثیق نہیں چاہیے، بس کچھ لوگ چاہیں جو آپ کو سمجھ سکیں، اتنا کافی ہے۔
تاریخ کے کچھ سب سے کامیاب ذہنوں نے بھی یہی کیا۔ رچرڈ فائن مین جیسے ذہین ماہرِ طبیعیات نے پیچیدہ چیزوں کو اتنے سادہ اور قابلِ فہم انداز میں سمجھایا کہ سننے والا متجسس ہو جائے، الجھے نہیں۔ ایڈا لولیس نے "سوشل لیبارٹریز" بنائیں جہاں سوچنے والے لوگ کھل کر بات کر سکیں اور دوسروں کو بھی خوش آمدید محسوس کرائیں۔ بینجمن فرینکلن، ایک عظیم مفکر ہونے کے باوجود، ہمیشہ خود کو ایک سیکھنے والے کے طور پر پیش کرتے تھے اور اپنی باتوں کو نصیحت یا سوال کی طرح رکھتے تھے تاکہ سننے والے کو برابری کا حصہ محسوس ہو نہ کہ کوئی برتری۔
آخر میں، یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ذہین ہونے کا مطلب اکیلا ہونا نہیں۔ شوپن ہاور نے یہ باتیں آپ کو ڈرانے کے لیے نہیں کہی تھیں بلکہ حقیقت بتائی تھی تاکہ آپ اسے سمجھ کر *سمارٹ طریقے سے زندگی گزار سکیں۔ اپنی ذہانت کو چھپانا بھی نہیں اور نہ ہی اوسط بننے کی اداکاری کرنی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ آپ ان سماجی پیٹرنز کو سمجھیں اور ان سے لڑنے کے بجائے ان میں اپنے طریقے سے نیویگیٹ کریں۔
معاشرہ بھلے ہی ذہین دماغوں سے ڈرتا ہو لیکن انہیں سب سے زیادہ ضرورت بھی انہی کی ہوتی ہے۔ ہر بڑی تبدیلی ہمیشہ کسی ایسے شخص سے آئی ہے جس نے گہرائی میں سوچا، واضح دیکھا اور سچ میں ذہین بننے کی ہمت رکھی۔ لہٰذا اگلی بار جب آپ محسوس کریں کہ لوگ آپ کی سوچ سے بے چین ہیں تو بس شوپن ہاور کی بات یاد رکھیں:
آپ کچھ غلط نہیں کر رہے، آپ بس ایک آئینہ پکڑے کھڑے ہیں اور اس آئینے میں لوگ کیا دیکھتے ہیں یا کیسے ردعمل دیتے ہیں، وہ آپ کی ذمہ داری نہیں ہے۔
x
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا