پوٹھوہار نامہ

پوٹھوہاری ادب نے فروغ واسطے کوشاں پوٹھوہار نامہ

ہفتہ، 31 مئی، 2025

تعارف پوٹھوہاری شاعر جاوید اختر شمشاد

 مصنف کا مختصر سوانحی خاکہ

جاوید اختر شمشاد صاحب، گوجرخان کے نواحی علاقے میں پاکستان بننے کے سات سال بعد، 14 اگست 1954ء کو پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے سرکاری ہائی اسکول، جنڈ نجار سے حاصل کی۔ اس کے بعد اپنے والد محترم کے ہمراہ راولپنڈی چلے گئے اور وہاں دریاآباد (لال کرتی) کے ٹیکنیکل ہائی اسکول میں داخلہ لیا۔ 1971ء میں میٹرک کے امتحان میں اول درجہ حاصل کیا، اور بعد ازاں خیر پولی ٹیکنیک کالج میں سول ٹیکنالوجی کے تین سالہ کورس میں داخل ہو گئے۔ کورس تو مکمل کیا لیکن بدقسمتی سے آخری امتحان میں شرکت نہ کر سکے، جس کی وجہ سے سند حاصل نہ کر سکے۔

کاروباری ضروریات کے باعث جاوید شمشاد صاحب 1974ء میں ابو ظہبی چلے گئے، اور آج تک وہیں ملازمت کر رہے ہیں۔ شاعری سے انہیں بچپن ہی سے دلی لگاؤ اور شوق رہا۔ پانچویں جماعت میں ہی انہیں سائیں پشوری کے کئی چار مصرعے اور دوہے زبانی یاد تھے۔ آج بھی انہیں سائیں مرحوم سے وہی عقیدت اور محبت ہے۔ سائیں احمد علی کے علاوہ، مولوی عبدالرحمن عبدل سے بھی بے پناہ روحانی تعلق رہا۔ جب خود شاعری کے میدان میں قدم رکھا تو میاں محمد بخشؒ کی شہرۂ آفاق مثنوی سیف الملوک کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا۔ سیف الملوک نے ان کی روحانی بصیرت کو بیدار کیا، پھر مولانا روم کی مثنوی، دیوانِ حافظ اور کلیاتِ اقبال کا مطالعہ بھی شروع کیا۔

ایک ایسا وقت بھی آیا جب انہوں نے شعر و ادب سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی، لیکن جب ان کی ملاقات علامہ ڈاکٹر محمد طاہر القادری سے ہوئی تو ان کے اندر دبی ہوئی چنگاری ایک شعلہ بن کر بھڑک اٹھی۔ ان کے قلم کا رخ مدینہ منورہ کی طرف ہو گیا اور نعت گوئی ان کا مستقل وظیفہ بن گئی۔

کتاب پھلواری میں جاوید شمشاد صاحب کی نعتیہ شاعری شامل ہے، جس میں ان کے روحانی جذبات اور وارفتگی کا اظہار حد درجہ نمایاں ہے۔ نعت کے علاوہ کتاب میں مناقب، تصوف، اخلاقیات، اور مسئلہ کشمیر کے حوالے سے تاثرات بھی شامل ہیں۔ پھلواری واقعی ایک رنگا رنگ پھولوں کا گلدستہ ہے، جسے ادارہ "دارالادب خاور منزل، گوجرخان" کے تعاون سے شائع کیا جا رہا ہے۔

میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مصنف کے ادبی ذوق کو مزید نکھار عطا فرمائے، ان کی سوچ میں گہرائی اور قلم میں حق گوئی کی جرات پیدا فرمائے۔ آمین۔

دعا گو
محراب خاور
گوجرخان
اگست 18، 2000

پھلواری | شاعر جاوید اختر شمشاد

 فہرستِ مضامین:

کتاب "پھلواری" جاوید اختر شمشاد کی ایک منفرد نعتیہ و دینی شاعری پر مشتمل تصنیف ہے، جس میں اسلامی عقائد، روحانی مضامین، اور قومی و اخلاقی موضوعات کو شاعرانہ رنگ میں پیش کیا گیا ہے۔

مندرجہ ذیل اہم عنوانات اس کتاب کا حصہ ہیں:

  • حمد باری تعالیٰ (صفحہ 7)

  • نعت (صفحہ 20)

  • سفرِ ہجرت (صفحہ 118)

  • مناقب خلفائے راشدین (صفحہ 127)

  • قصیدہ بَردہ (صفحہ 135)

  • کربلا (صفحہ 138)

  • تصوف (صفحہ 140)

  • غوثِ اعظم (صفحہ 186)

  • حقوق والدین (صفحہ 189)

  • جہاد (صفحہ 191)

  • مختلف اقوام (صفحہ 200)

جمعہ، 30 مئی، 2025

رنگین سخن شاعر سائیں عبد الرحمن فقیر مست


سائیں عبد الرحمٰن فقیر مستؔ کی دل آویز شاعری پر مشتمل کتاب "رنگین سخن" اب طوبیٰ فاؤنڈیشن کی ویب سائٹ پر آپ دوستوں کی خدمت میں پیش کی جا چکی ہے۔
یہ کتاب بآسانی ڈاؤن لوڈ کی جا سکتی ہے تاکہ سائیں فقیر مستؔ کے رنگین کلام سے ہر کوئی بہرہ‌مند ہو سکے۔

اس کے علاوہ، سائیں فقیر مستؔ کی دیگر کتب بھی طوبیٰ فاؤنڈیشن پر دستیاب ہیں، جو مطالعہ اور ڈاؤن لوڈ کے لیے مہیا کی گئی ہیں۔

اگر کسی دوست کو کتاب ڈاؤن لوڈ کرنے میں کسی قسم کی دقت یا تکنیکی مسئلے کا سامنا ہو، تو براہِ کرم کمنٹ میں ہمیں مطلع کریں، ہم بروقت رہنمائی فراہم کریں گے۔

ڈون لوڈ

پیر، 26 مئی، 2025

جلوۂ عشق (Jalwa-e-Ishq) شاعر بشیر ناطق قادری (Basheer Natiq Qadri)

 

جلوۂ عشق (Jalwa-e-Ishq)

"جلوۂ عشق" (Jalwa-e-Ishq) ایک وجد انگیز روحانی تحفہ ہے، جو حضرت عربی شاہ قلندر علیہ الرحمہ [Hazrat Arabi
Shah Qalandar (R.A.)] کی قلندرانہ شان اور ان کے عشقِ الٰہی کی مہک سے معطر ہے۔ یہ کتاب نہ صرف صوفی شاعری (Sufi Poetry) کی بہترین مثال ہے بلکہ پوٹھوہاری ادب (Pothohari Adab) میں بھی ایک نادر اضافہ ہے۔

کتاب کا مرکزی محور وہ چار مصرعے ہیں جو Arabi Shah Qalandar نے ایک خاص روحانی لمحے میں ارشاد فرمائے، اور جنہیں بشیر ناطق قادری [Basheer Natiq Qadri] نے وجد، محبت اور اخلاص کی مشعل سے جلا کر "عشق مشالاں" (Ishq Mishalan) میں بدل دیا۔

ان مصرعوں کو نظم کی صورت میں جس طرح نکھارا گیا ہے، وہ صوفیانہ وجدان، قلندری انداز اور فقیرانہ لب و لہجے کا امتزاج پیش کرتا ہے۔ ہر مصرعہ قاری کو ذکر اللہ (Zikr-e-Ilahi)، عشقِ حقیقی (Divine Love) اور روحانی سلوک (Spiritual Path) کی نئی وادیوں میں لے جاتا ہے۔

ادبی اور روحانی اہمیت:

Basheer Natiq Qadri نے اس کتاب میں جس طرح Arabi Shah Qalandar کی مدح کی ہے، وہ نہ صرف عشقِ قلندری کی روشن مثال ہے بلکہ پاکستانی صوفی شاعری (Pakistani Sufi Poetry) میں بھی ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔ یہ وہی "عشق مشالاں" ہے جس کا ذکر قمر عبداللہ [Qamar Abdullah] نے بڑے ادب و احترام سے کیا اور اسے "نور کے مشعل بردار اشعار" کہا۔

کتاب کے ابواب میں بارہا ایسے مقامات آتے ہیں جہاں قاری خود کو فقیرانہ جذب و حال میں مبتلا پاتا ہے۔ اسلوب میں پوٹھوہاری ثقافت، صوفی ازم ادب (Sufism in Literature)، اور روحانی مجذوبیت کا حسین امتزاج نمایاں ہے۔

نسبت و فیضان:

کتاب کی روحانی نسبت صوفی محمد امینؒ [Sufi Muhammad Amin]، سائیں احمد علی ایرانیؒ [Sain Ahmad Ali Irani] اور دائم اقبال دائمؒ [Daim Iqbal Daim] جیسے باصفا بزرگوں سے جا ملتی ہے، جنہوں نے عشقِ الٰہی اور توحیدی شعور کو عام کیا۔ بشیر ناطق قادری اس سلسلے کے فیض یافتہ ہیں جنہوں نے اس محبت کو شعری قالب میں ڈھال کر Jalwa-e-Ishq کو تخلیق کیا۔

اشاعت و اثر:

پہلا ایڈیشن 2003 میں منظر عام پر آیا، اور 2016 تک اس کے تین ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ اس کتاب کو نہ صرف چکوال، پوٹھوہار اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں بلکہ بیرونِ ملک بھی صوفی فکر رکھنے والے قارئین نے عقیدت و محبت سے پڑھا۔

جمعرات، 22 مئی، 2025

سلطان اورنگزیب عالمگیرؒ: زہد، عدل اور سلطنت کا تاجدار


سلطان اورنگزیب عالمگیرؒ، جنہیں تاریخ ایک زاہد فرمانروا، نڈر سپہ سالار اور علم و شریعت کا پاسدار بادشاہ مانتی ہے، 4 نومبر 1618ء کو ہندوستان کے مغربی حصے میں واقع گجرات کے شہر داہود میں پیدا ہوئے۔ آپ کا نام محض ایک مغل بادشاہ کے طور پر نہیں، بلکہ ایک ایسی شخصیت کے طور پر لیا جاتا ہے جس نے مذہب، حکمرانی اور روحانی اقدار کو یکجا کر کے ایک نادر مثال قائم کی۔

بچپن ہی سے اورنگزیبؒ میں شرافت، جلال اور دینی رجحان کے آثار نمایاں تھے۔ شاہی محل کے ماحول میں پرورش پانے کے باوجود، آپ نے عیش و عشرت سے کنارہ کشی اختیار کی اور زہد و تقویٰ کی روش اپنائی۔ آپ ایک ماہر گھڑ سوار، جنگی حکمتِ عملی کے ماہر اور علمی ذوق رکھنے والے فرمانروا تھے۔ آپ نے دکن کے گورنر کے طور پر تقرری کے دوران انتظامی معاملات میں گہرے فہم و ادراک کا مظاہرہ کیا، جو بعد ازاں سلطنت کے نظم و نسق میں کارفرما رہا۔

اورنگزیبؒ کی فتوحات نے مغلیہ سلطنت کو اپنے عروج کی بلند ترین سطح تک پہنچا دیا۔ ان کے دور میں سلطنت کا رقبہ تقریباً 4 ملین مربع میل تک پھیل گیا، جو اس وقت دنیا کی سب سے بڑی سلطنتوں میں شمار ہوتی تھی۔ 158 ملین افراد پر حکومت اور 450 ملین ڈالر سالانہ آمدن کے ساتھ مغلیہ سلطنت، فرانس کے شہنشاہ لوئس چہار دہم کی سلطنت سے بھی دس گنا بڑی معیشت بن چکی تھی۔ 1700ء میں سلطنت کا جی ڈی پی عالمی معیشت کا ایک چوتھائی (25٪) حصہ بنتا تھا۔

آپ نے اپنی 52 سالہ حکومت میں تیس سے زائد جنگوں کی قیادت کی، جن میں سے گیارہ براہِ راست آپ کی زیرِ کمان لڑی گئیں۔ آپ کی قیادت میں مغلیہ سلطنت نے جنوبی ہند کو فتح کر کے برصغیر کی مسلم شناخت کو مستحکم کیا۔ آپ نے عدل و انصاف کو اپنی حکمرانی کا سنگِ بنیاد بنایا، 80 سے زائد ظالمانہ ٹیکس منسوخ کیے اور شرعی نظامِ عدل نافذ کیا۔ غیر مسلموں پر جزیہ دوبارہ نافذ کیا، جسے آپ کے اسلاف نے ختم کر دیا تھا، تاکہ شرعی اصولوں کی روشنی میں ریاست کی تشکیل ہو۔

علم و حکمت سے گہری وابستگی رکھنے والے اورنگزیبؒ نے مساجد، مدارس، حمام، شفاخانے، باغات اور سڑکوں کی تعمیر کا سلسلہ جاری رکھا۔ لاہور میں واقع بادشاہی مسجد ان کے دورِ حکومت کا ایک عظیم الشان شاہکار ہے، جو آج بھی اسلامی فنِ تعمیر کا عظیم نمونہ مانی جاتی ہے۔

سلطان اورنگزیبؒ کی نجی زندگی ان کی عوامی شخصیت سے بھی زیادہ متاثر کن تھی۔ وہ پابندِ صوم و صلوٰۃ تھے، قرآن کی باقاعدگی سے تلاوت کرتے، اور اپنے ہاتھ سے قرآن مجید کی نقل تیار کرتے، جو آج بھی محفوظ ہے۔ وہ ہر روز تین اوقات میں عوامی شکایات سنتے اور براہِ راست فیصلے صادر کرتے، حتیٰ کہ بغیر کسی محافظ کے دربار میں آتے۔ اُنہوں نے اسلامی فقہ کو باقاعدہ قانون کی شکل میں مرتب کروایا، جس کا ثبوت اُن کی نگرانی میں مرتب ہونے والا “فتاوٰی عالمگیری” ہے۔

وفات کے وقت سلطان نے وصیت کی کہ ان کے کفن دفن پر پانچ روپے سے زیادہ خرچ نہ کیا جائے، اور ان کی قبر سادہ ہو، جس پر کوئی شاہی نشان نہ ہو۔ انہوں نے 90 سال کی عمر پائی اور اپنی عمر کے آخری لمحات تک قرآن کی تلاوت، عبادت اور ریاستی امور میں مصروف رہے۔ 20 فروری 1707ء کو وہ اس فانی دنیا سے کوچ کر گئے، مگر اپنی سادہ زندگی، عظیم فتوحات اور شریعت پر مبنی حکمرانی کے سبب تاریخ میں ایک درخشندہ مقام حاصل کر گئے۔ 

باغ سرداراں کے مندر

 باغ سرداراں کے مندر ۔۔۔۔ میرے والد صاحب مرحوم پولیس میں تھے ہم باغ سرداراں میں رہتے تھے ۔۔۔ بہت خوبصورت باغ تھا
قسم قسم کے درخت لگے ہوئے تھے ۔۔۔ ایک بہت بڑا تالاب تھا جس میں شاید ہندو یا سکھ لوگ نہایا کرتے تھے ۔۔۔ بارش کے بعد اس میں بہت سا پانی جمع ہو جاتا تھا تو ہم بھی نہایا کرتے تھے ۔۔۔۔ تالاب کے قریب ہی سردار سوجان سنگھ کا مقبرہ تھا ۔۔۔ وہاں بہت ہی خوبصورت سنگ مرمر لگا ہوا تھا اور خوبصورت جنگلا تھا ۔۔۔ ایک جنگلا سارے باغ کے گرد لگا ہوا تھا ۔۔۔ اب سردار سوجان سنگھ کے مقبرے میں کوئی سنگ مرمر کوئی جنگلا نہیں ہے ۔۔۔ نامعلوم افراد یہ جنگلا یہ سنگ مرمر حتی کہ مقبرے کا دروازہ بھی اکھاڑ کر لے گئے ہیں ۔۔۔ باغ کے گرد لگا ہوا مضبوط جنگلا بھی سارے کا سارا کوئی اکھاڑ کر بیچ گیا ہے ۔۔۔۔ اتنی کھلی جگہ تھی یہ ساری بیچ دی گئی ہے ۔۔۔ ہم سن 1971 میں یہاں پر مورچے کھودا کرتے تھے ۔۔۔ شہتوت اور جامن کے بہت خوبصورت درخت تھے پیپل کے درخت اور شیشم کے درخت بھی بے شمار تھے نایاب قسم کے درخت بھی بہت سے تھے  جن میں بِل کا درخت بھی شامل تھا 

اب تصور میں پرانے باغ کو دیکھتے ہیں اور اج کل اس کی حالت دیکھتے ہیں ۔۔۔ تو دل سے بے اختیار آہ نکلتی ہے ۔۔۔ ہمارے پاکستانی بہت ہی ظالم ہیں ۔۔۔ بہت ہی لالچی ہیں ۔۔۔ اپنے ذرا سے فائدے کے لیے خوبصورت چیزوں کو تہس نہس کر دیتے ہیں

شمشاد خان کی یہ تحریر فیس بک سے لی گئی ہے

جمعہ، 16 مئی، 2025

نوائے مرید شاعر طاہر حسین عرزم


 "نوائے مرید" ایک منفرد سی حرفی شعری مجموعہ ہے، جو خطۂ پوٹھوہار کے معتبر اور فکری شاعر طاہر حسین عرزم (Tahir Hussain Arzam) کی روحانی و فکری کاوش ہے۔ اس کتاب میں اردو حروفِ تہجی (الف تا یے) کے مطابق ہر حرف پر چار مصرعی اشعار (چو مصرع) پیش کیے گئے ہیں، جو زبان و بیان کی سادگی کے ساتھ ساتھ فکری بلندی، اخلاقی تربیت، اور روحانی رنگ لیے ہوئے ہیں۔

مصنف نے اس سی حرفی کے ذریعے اپنے پیر و مرشد حضرت چن پیر شاہ جیلانی قادری رزاقیؒ (Hazrat Chan Peer Shah Gilani Qadri Razzaqi RA) کی روحانی شخصیت کو منظوم خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ فکرِ آخرت، تزکیۂ نفس، اور سلوک و تصوف کے نکات کو بھی دلنشین انداز میں اشعار کے قالب میں ڈھالا گیا ہے۔

کتاب کا اسلوب خالص پوٹھوہاری زبان و ذوق سے مزین ہے، جو مقامی ثقافت، صوفی روایت، اور اخلاقی اقدار کا حسین امتزاج پیش کرتا ہے۔
"نوائے مرید" محض ایک شعری مجموعہ نہیں، بلکہ ایک مرید کے دل کی وہ پکار ہے جو عشقِ مرشد، سچائی کی تلاش، اور فکری پختگی سے سرشار ہے۔

یہ کتاب اب طوبیٰ فاؤنڈیشن کے پلیٹ فارم پر قارئین کے لیے دستیاب ہے:

🔗 https://toobaafoundation.com/product/nawa-e-mureed-نوائے-مرید/


ڈون لوڈ


منگل، 13 مئی، 2025

عشق سے شعلے شاعر یخیی ناظر

 کتاب کا نام: عشق دے شعلے

مصنف: محمد یحییٰ ناظر
اشاعت کا سال: جون 1999ء
صفحات: 128
اشاعت کی تعداد: 500
ناشر: محمد لطیف، فضل آباد
فرمایش: محمود حسین محمود، محمد صالحین، محمد فیاض منہاس

کتاب شق دے شعلے ایک روحانی جذبے سے لبریز، سوز و گداز اور جذب و مستی سے معمور یادگار تخلیق ہے جو اللہ والوں کی بارگاہ میں عقیدت کے پھول نچھاور کرتی ہے۔ اس کے مصنف محمد یحییٰ ناظر نے نہایت ادب، سادگی، اور اخلاص سے ان بزرگوں کی حیاتِ مبارکہ کے ایسے پہلو اجاگر کیے ہیں جو قاری کے قلب و نظر کو جھنجھوڑ دیتے ہیں۔
کتاب کی ابتدا اس حقیقت سے ہوتی ہے کہ اولیاء اللہ کی ذاتِ بابرکات، دنیا میں ربّانی جمال و کمال کی زندہ دلیل ہے۔ یہ حضرات فقط عبادات و ریاضات کے پیکر نہیں بلکہ محبتِ الٰہی کے عملی مظہر ہوتے ہیں۔ مصنف نے اپنے مطالعے، مشاہدے اور روحانی تجربات کی روشنی میں ان پاکباز ہستیوں کے فیوض و برکات کو سلیقے سے قلم بند کیا ہے۔
اس کتاب کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس میں نہ صرف اولیاء اللہ کے ملفوظات اور ان کے روحانی کمالات کا ذکر ہے بلکہ ایک عام انسان کی روحانی ترقی کے مراحل اور درپیش چیلنجز کا بھی نہایت خوبصورت انداز میں تجزیہ کیا گیا ہے۔ مصنف کا اندازِ نگارش پراثر، دل نشین اور ایمان افروز ہے۔ وہ جگہ جگہ اپنے قلبی جذبات کو اس انداز میں بیان کرتے ہیں کہ قاری کو محسوس ہوتا ہے جیسے وہ خود اس روحانی سفر کا حصہ بن چکا ہو۔
کتاب کے آخر میں مصنف نے عقیدت و محبت سے بھرپور دعا پر بات ختم کی ہے، جس میں انہوں نے یہ خواہش ظاہر کی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اولیاء کی راہوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور عشقِ حقیقی کی لذت سے سرفراز فرمائے۔



عشق دے شعلے:کتاب دا مکھڑا

  1. خلوص دا اظہار
  2. ناظر ہوراں دی شاعری
  3. شعلے عشق دے
  4. حمدِ باری
  5. کلمہ شریف
  6. سبحان اللہ
  7. بسم اللہ
  8. حق ہو دیاں ضرباں
  9. ِنت اللہ اللہ کریاں کر
  10. مدینے کا چن
  11. حضور دیاں شفقتاں
  12. آقا دی غم خواری
  13. عقیدت دا سرور
  14. جشنِ ولادت
  15. جلوۂ حسن
  16. عاشق دے نظارے
  17. بھاگاں والی حلیمہ
  18. زہرا دے شیر دا مل
  1. بقا عشق
  2. نماز
  3. کربلا والے نمازی
  4. کربلا وچ عشق دا رنگ
  5. رمضان شریف دیاں برکتاں
  6. مدح غوث پاک
  7. سرکار مہراں علی شاہ
  8. ہدیہ میر کلاں بادشاہ
  9. میاں سہی کردار
  10. نذرانہ عقیدت بگا شریف
  11. حافظ ہوراں دی خدمت وچ نذرانہ
  12. حافظ ہوراں دیاں بندہ نوازیاں
  13. سوہنے گھر دیاں تیاریاں
  14. صدی چودھویں
  15. نھیری قبر والی حوالات
  16. حقیقت تے مجاز

جمعرات، 1 مئی، 2025

ڈوہنگے سمندر شاعر سلطان ظہور اختر

 ”ڈوہنگے سمندر“ محض نظموں کا مجموعہ نہیں بلکہ پوٹھوہار کے سینے سے ابھرنے والی ایک روحانی صدا ہے۔ ظہور اختر
کا یہ اولین شعری مجموعہ پوٹھوہاری زبان کی ترجمانی کرتا ہے—ایک ایسی بولی جو ثقافتی گہرائی، لوک سوز اور روحانی معنویت سے لبریز ہے۔اس مجموعے میں ابیات، دوہے، دوبیتیاں شامل ہیں، نیز کچھ منفرد اصنافِ نظم جیسے جگتی، سمی، مندری، کریکی پھیلا اور اڈیٖک بھی شامل کی گئی ہیں، جو پوٹھوہار کی لوک روایتوں کے رنگ و آہنگ میں رچی بسی ہیں۔ یہ اشعار محض تفریح نہیں، بلکہ دلوں کو بیدار کرتے ہیں۔ ان کا مرکزی جذبہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے عشق ہے، اور ان کی دھڑکن میں حضرت میاں محمد بخش اور حضرت پیر محمد شاہ کے ابیات کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔
ظہور اختر کا تعلق ایک عظیم خانوادے سے ہے۔ آپ کے جدِ امجد سلطان مقرب خان پوٹھوہار کے ایک بہادر اور بصیرت مند حکمران تھے، جو پانی پت کی تیسری جنگ میں احمد شاہ ابدالی کی کیولری فورس کی قیادت کر رہے تھے۔ بعد ازاں جنگِ گجرات میں سکھوں کے خلاف لڑتے ہوئے شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے۔ عجیب اتفاق ہے کہ دو سو سال بعد انہی کی نسل سے، راجہ حسن اختر کے سب سے چھوٹے صاحبزادے میجر مسعود اختر نے 1965ء کی جنگِ چونڈہ میں محض 28 برس کی عمر میں جامِ شہادت نوش کیا۔
راجہ حسن اختر، ظہور اختر کے والد، جن کا وصال اکتوبر 1973ء میں ہوا، پاکستان کے جید مفکرین میں شمار ہوتے تھے۔ وہ اُن خوش نصیب ہستیوں میں شامل تھے جنہیں حکیم الامت حضرت علامہ محمد اقبالؒ نے اپنا حبیب و صدیق فرمایا۔ فکرِ اقبال کے فروغ اور تحریکِ پاکستان کے نظریاتی پہلوؤں میں ان کی گراں قدر خدمات تاریخ کا روشن باب ہیں۔
راجہ صاحب کے فرزندوں میں شاعری کا باقاعدہ ورثہ ان کے منجھلے صاحبزادے محمود اختر کیانی کو حاصل ہوا، جو اردو زبان کے ایک خوش گو شاعر تھے۔ افسوس کہ وہ جولائی 1975ء میں، عالمِ شباب ہی میں انتقال فرما گئے۔
ظہور اختر کی پرورش نہ صرف علم و حکمت کے درخشاں ماحول میں ہوئی بلکہ وہ کہوٹہ کے غیرت مند پہاڑی علاقے کے باسی رہے، جہاں عزم اور عشق مٹی میں رچے بسے ہیں۔ ان کا اسمِ گرامی حضرت علامہ اقبالؒ نے تجویز فرمایا تھا—ایک روحانی نسبت جو ان کی شاعری میں جھلکتی ہے۔ ان کے کلام میں لہجہ تو پوٹھوہاری ہے، مگر لب و لہجہ حجاز کی مانند ہے—محبت، اخلاص اور جذب کی ایک حسین آمیزش۔
معروف مزاح نگار اور شاعر سید ضمیر جعفری فرماتے ہیں:

”ایسے شخص سے، جو سلطان مقرب خان کی نسل سے ہو، راجہ حسن اختر جیسے مردِ دانا کی تربیت میں پلا ہو، اور جس کا نام خود علامہ اقبال نے رکھا ہو—ہمیں اسی شاعر کی توقع تھی، جو اگرچہ منفرد ہو، مگر اس کی لے حجازی ہو۔“

”ڈوہنگے سمندر“ ایک کتاب نہیں، بلکہ روح کا نغمہ ہے—ایک ایسی صدا جو عشق، تاریخ اور سرزمینِ پوٹھوہار کے دل سے اٹھتی ہے۔ ظہور اختر کے کلام میں پوٹھوہاری زبان کو نئی زندگی ملی ہے، اور ان کے اشعار کے ذریعے یہ بولی برِ صغیر کی ادبی روایت میں باوقار انداز میں داخل ہو رہی ہے—گہرائی، افتخار اور روحانیت کے ساتھ۔


ڈوہنگے سمندر شاعر سلطان ظہور اختر

آپکا شکریا

مشہور اشاعتیں

دوستی کریں۔