پوٹھوہار نامہ

پوٹھوہاری ادب نے فروغ واسطے کوشاں پوٹھوہار نامہ

ڈوہنگے سمندر شاعر سلطان ظہور اختر

 ”ڈوہنگے سمندر“ محض نظموں کا مجموعہ نہیں بلکہ پوٹھوہار کے سینے سے ابھرنے والی ایک روحانی صدا ہے۔ ظہور اختر
کا یہ اولین شعری مجموعہ پوٹھوہاری زبان کی ترجمانی کرتا ہے—ایک ایسی بولی جو ثقافتی گہرائی، لوک سوز اور روحانی معنویت سے لبریز ہے۔اس مجموعے میں ابیات، دوہے، دوبیتیاں شامل ہیں، نیز کچھ منفرد اصنافِ نظم جیسے جگتی، سمی، مندری، کریکی پھیلا اور اڈیٖک بھی شامل کی گئی ہیں، جو پوٹھوہار کی لوک روایتوں کے رنگ و آہنگ میں رچی بسی ہیں۔ یہ اشعار محض تفریح نہیں، بلکہ دلوں کو بیدار کرتے ہیں۔ ان کا مرکزی جذبہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے عشق ہے، اور ان کی دھڑکن میں حضرت میاں محمد بخش اور حضرت پیر محمد شاہ کے ابیات کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔
ظہور اختر کا تعلق ایک عظیم خانوادے سے ہے۔ آپ کے جدِ امجد سلطان مقرب خان پوٹھوہار کے ایک بہادر اور بصیرت مند حکمران تھے، جو پانی پت کی تیسری جنگ میں احمد شاہ ابدالی کی کیولری فورس کی قیادت کر رہے تھے۔ بعد ازاں جنگِ گجرات میں سکھوں کے خلاف لڑتے ہوئے شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے۔ عجیب اتفاق ہے کہ دو سو سال بعد انہی کی نسل سے، راجہ حسن اختر کے سب سے چھوٹے صاحبزادے میجر مسعود اختر نے 1965ء کی جنگِ چونڈہ میں محض 28 برس کی عمر میں جامِ شہادت نوش کیا۔
راجہ حسن اختر، ظہور اختر کے والد، جن کا وصال اکتوبر 1973ء میں ہوا، پاکستان کے جید مفکرین میں شمار ہوتے تھے۔ وہ اُن خوش نصیب ہستیوں میں شامل تھے جنہیں حکیم الامت حضرت علامہ محمد اقبالؒ نے اپنا حبیب و صدیق فرمایا۔ فکرِ اقبال کے فروغ اور تحریکِ پاکستان کے نظریاتی پہلوؤں میں ان کی گراں قدر خدمات تاریخ کا روشن باب ہیں۔
راجہ صاحب کے فرزندوں میں شاعری کا باقاعدہ ورثہ ان کے منجھلے صاحبزادے محمود اختر کیانی کو حاصل ہوا، جو اردو زبان کے ایک خوش گو شاعر تھے۔ افسوس کہ وہ جولائی 1975ء میں، عالمِ شباب ہی میں انتقال فرما گئے۔
ظہور اختر کی پرورش نہ صرف علم و حکمت کے درخشاں ماحول میں ہوئی بلکہ وہ کہوٹہ کے غیرت مند پہاڑی علاقے کے باسی رہے، جہاں عزم اور عشق مٹی میں رچے بسے ہیں۔ ان کا اسمِ گرامی حضرت علامہ اقبالؒ نے تجویز فرمایا تھا—ایک روحانی نسبت جو ان کی شاعری میں جھلکتی ہے۔ ان کے کلام میں لہجہ تو پوٹھوہاری ہے، مگر لب و لہجہ حجاز کی مانند ہے—محبت، اخلاص اور جذب کی ایک حسین آمیزش۔
معروف مزاح نگار اور شاعر سید ضمیر جعفری فرماتے ہیں:

”ایسے شخص سے، جو سلطان مقرب خان کی نسل سے ہو، راجہ حسن اختر جیسے مردِ دانا کی تربیت میں پلا ہو، اور جس کا نام خود علامہ اقبال نے رکھا ہو—ہمیں اسی شاعر کی توقع تھی، جو اگرچہ منفرد ہو، مگر اس کی لے حجازی ہو۔“

”ڈوہنگے سمندر“ ایک کتاب نہیں، بلکہ روح کا نغمہ ہے—ایک ایسی صدا جو عشق، تاریخ اور سرزمینِ پوٹھوہار کے دل سے اٹھتی ہے۔ ظہور اختر کے کلام میں پوٹھوہاری زبان کو نئی زندگی ملی ہے، اور ان کے اشعار کے ذریعے یہ بولی برِ صغیر کی ادبی روایت میں باوقار انداز میں داخل ہو رہی ہے—گہرائی، افتخار اور روحانیت کے ساتھ۔


ڈوہنگے سمندر شاعر سلطان ظہور اختر
شئیر کریں:

2 تبصرے:

  1. قریشی صاحب آپ نے میری ایک عرصہ سے جاری تلاش مکمل کردی۔ مولا جزائے خیر عطا فرمائے آمین ثم آمین بجاہ خاتم النبیین و یا سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

    جواب دیںحذف کریں
  2. جزاک اللہ یہ سب آپ احباب کی وجہ سے ممکن ہوا ہے

    جواب دیںحذف کریں

علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا

آپکا شکریا

مشہور اشاعتیں

دوستی کریں۔