قسم قسم کے درخت لگے ہوئے تھے ۔۔۔ ایک بہت بڑا تالاب تھا جس میں شاید ہندو یا سکھ لوگ نہایا کرتے تھے ۔۔۔ بارش کے بعد اس میں بہت سا پانی جمع ہو جاتا تھا تو ہم بھی نہایا کرتے تھے ۔۔۔۔ تالاب کے قریب ہی سردار سوجان سنگھ کا مقبرہ تھا ۔۔۔ وہاں بہت ہی خوبصورت سنگ مرمر لگا ہوا تھا اور خوبصورت جنگلا تھا ۔۔۔ ایک جنگلا سارے باغ کے گرد لگا ہوا تھا ۔۔۔ اب سردار سوجان سنگھ کے مقبرے میں کوئی سنگ مرمر کوئی جنگلا نہیں ہے ۔۔۔ نامعلوم افراد یہ جنگلا یہ سنگ مرمر حتی کہ مقبرے کا دروازہ بھی اکھاڑ کر لے گئے ہیں ۔۔۔ باغ کے گرد لگا ہوا مضبوط جنگلا بھی سارے کا سارا کوئی اکھاڑ کر بیچ گیا ہے ۔۔۔۔ اتنی کھلی جگہ تھی یہ ساری بیچ دی گئی ہے ۔۔۔ ہم سن 1971 میں یہاں پر مورچے کھودا کرتے تھے ۔۔۔ شہتوت اور جامن کے بہت خوبصورت درخت تھے پیپل کے درخت اور شیشم کے درخت بھی بے شمار تھے نایاب قسم کے درخت بھی بہت سے تھے جن میں بِل کا درخت بھی شامل تھا
اب تصور میں پرانے باغ کو دیکھتے ہیں اور اج کل اس کی حالت دیکھتے ہیں ۔۔۔ تو دل سے بے اختیار آہ نکلتی ہے ۔۔۔ ہمارے پاکستانی بہت ہی ظالم ہیں ۔۔۔ بہت ہی لالچی ہیں ۔۔۔ اپنے ذرا سے فائدے کے لیے خوبصورت چیزوں کو تہس نہس کر دیتے ہیں
شمشاد خان کی یہ تحریر فیس بک سے لی گئی ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا