پوٹھوہار نامہ

پوٹھوہاری ادب نے فروغ واسطے کوشاں پوٹھوہار نامہ

سلطان اورنگزیب عالمگیرؒ: زہد، عدل اور سلطنت کا تاجدار


سلطان اورنگزیب عالمگیرؒ، جنہیں تاریخ ایک زاہد فرمانروا، نڈر سپہ سالار اور علم و شریعت کا پاسدار بادشاہ مانتی ہے، 4 نومبر 1618ء کو ہندوستان کے مغربی حصے میں واقع گجرات کے شہر داہود میں پیدا ہوئے۔ آپ کا نام محض ایک مغل بادشاہ کے طور پر نہیں، بلکہ ایک ایسی شخصیت کے طور پر لیا جاتا ہے جس نے مذہب، حکمرانی اور روحانی اقدار کو یکجا کر کے ایک نادر مثال قائم کی۔

بچپن ہی سے اورنگزیبؒ میں شرافت، جلال اور دینی رجحان کے آثار نمایاں تھے۔ شاہی محل کے ماحول میں پرورش پانے کے باوجود، آپ نے عیش و عشرت سے کنارہ کشی اختیار کی اور زہد و تقویٰ کی روش اپنائی۔ آپ ایک ماہر گھڑ سوار، جنگی حکمتِ عملی کے ماہر اور علمی ذوق رکھنے والے فرمانروا تھے۔ آپ نے دکن کے گورنر کے طور پر تقرری کے دوران انتظامی معاملات میں گہرے فہم و ادراک کا مظاہرہ کیا، جو بعد ازاں سلطنت کے نظم و نسق میں کارفرما رہا۔

اورنگزیبؒ کی فتوحات نے مغلیہ سلطنت کو اپنے عروج کی بلند ترین سطح تک پہنچا دیا۔ ان کے دور میں سلطنت کا رقبہ تقریباً 4 ملین مربع میل تک پھیل گیا، جو اس وقت دنیا کی سب سے بڑی سلطنتوں میں شمار ہوتی تھی۔ 158 ملین افراد پر حکومت اور 450 ملین ڈالر سالانہ آمدن کے ساتھ مغلیہ سلطنت، فرانس کے شہنشاہ لوئس چہار دہم کی سلطنت سے بھی دس گنا بڑی معیشت بن چکی تھی۔ 1700ء میں سلطنت کا جی ڈی پی عالمی معیشت کا ایک چوتھائی (25٪) حصہ بنتا تھا۔

آپ نے اپنی 52 سالہ حکومت میں تیس سے زائد جنگوں کی قیادت کی، جن میں سے گیارہ براہِ راست آپ کی زیرِ کمان لڑی گئیں۔ آپ کی قیادت میں مغلیہ سلطنت نے جنوبی ہند کو فتح کر کے برصغیر کی مسلم شناخت کو مستحکم کیا۔ آپ نے عدل و انصاف کو اپنی حکمرانی کا سنگِ بنیاد بنایا، 80 سے زائد ظالمانہ ٹیکس منسوخ کیے اور شرعی نظامِ عدل نافذ کیا۔ غیر مسلموں پر جزیہ دوبارہ نافذ کیا، جسے آپ کے اسلاف نے ختم کر دیا تھا، تاکہ شرعی اصولوں کی روشنی میں ریاست کی تشکیل ہو۔

علم و حکمت سے گہری وابستگی رکھنے والے اورنگزیبؒ نے مساجد، مدارس، حمام، شفاخانے، باغات اور سڑکوں کی تعمیر کا سلسلہ جاری رکھا۔ لاہور میں واقع بادشاہی مسجد ان کے دورِ حکومت کا ایک عظیم الشان شاہکار ہے، جو آج بھی اسلامی فنِ تعمیر کا عظیم نمونہ مانی جاتی ہے۔

سلطان اورنگزیبؒ کی نجی زندگی ان کی عوامی شخصیت سے بھی زیادہ متاثر کن تھی۔ وہ پابندِ صوم و صلوٰۃ تھے، قرآن کی باقاعدگی سے تلاوت کرتے، اور اپنے ہاتھ سے قرآن مجید کی نقل تیار کرتے، جو آج بھی محفوظ ہے۔ وہ ہر روز تین اوقات میں عوامی شکایات سنتے اور براہِ راست فیصلے صادر کرتے، حتیٰ کہ بغیر کسی محافظ کے دربار میں آتے۔ اُنہوں نے اسلامی فقہ کو باقاعدہ قانون کی شکل میں مرتب کروایا، جس کا ثبوت اُن کی نگرانی میں مرتب ہونے والا “فتاوٰی عالمگیری” ہے۔

وفات کے وقت سلطان نے وصیت کی کہ ان کے کفن دفن پر پانچ روپے سے زیادہ خرچ نہ کیا جائے، اور ان کی قبر سادہ ہو، جس پر کوئی شاہی نشان نہ ہو۔ انہوں نے 90 سال کی عمر پائی اور اپنی عمر کے آخری لمحات تک قرآن کی تلاوت، عبادت اور ریاستی امور میں مصروف رہے۔ 20 فروری 1707ء کو وہ اس فانی دنیا سے کوچ کر گئے، مگر اپنی سادہ زندگی، عظیم فتوحات اور شریعت پر مبنی حکمرانی کے سبب تاریخ میں ایک درخشندہ مقام حاصل کر گئے۔ 

شئیر کریں:

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا

آپکا شکریا

مشہور اشاعتیں

دوستی کریں۔