الطاف گوہر لکھتے ہیں کہ ۱۹۶۶ء کے آغاز میں ایوب خان نے بھٹو سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا مگر اس وقت تک بھٹو عوام کے ہیرو بن چکے تھے۔ انہیں فوج کے ان جرنیلوں کی حمایت بھی حاصل تھی، جو ایوب خاں پر یہ الزام لگاتے تھے کہ انہوں نے اپنے اقتدار کی خاطر پاک بھارت جنگ کو منطقی انجام تک پہنچنے نہ دیا۔ اس زمانے میں بھٹو نے جی ایچ کیو میں ایڈ جو ننٹ جنرل پیرزادہ اور ڈائریکٹر ملٹری آپریشنز گل حسن سمیت کئی سینئر افسروں سے قریبی مراسم قائم کر لئے تھے۔ بھٹو فوج کے ان سینئر افسروں میں بیٹھ کر ایوب خان کی بزدلی" کی داستانیں سناتے۔ جونیئر افسروں اور جوانوں میں بھٹو کو پہلے ہی مقبولیت حاصل تھی۔ یوں فوجی افسروں کے دلوں میں بھٹو کی حمایت کے جو جذبات پیدا ہوئے وہ تین برس بعد ایوب خان کے خلاف عوامی تحریک میں ان کا بنیادی اثاثہ ثابت ہوئے۔ ایوب خان کے عروج و زوال میں بھٹو کو مرکزی کردار کی حیثیت حاصل تھی۔ بھٹو جو کبھی اختیارات کے ارتکاز اور شخصی طرز حکومت کے سب سے بڑے حامی تھے، اب اشتراکیت اور عوامی حاکمیت کے نظریات کے سب سے بڑے مبلغ بن چکے تھے۔ اب تو ان کا مقصد ایوب خان کے ہر اقدام کی مخالفت کرنا تھا۔ بھٹو کو ایوب خان کے معتمد ساتھی کی حیثیت حاصل رہی تھی، چنانچہ جب انہوں نے حکومت کی داخلی کمزوریوں اور تضادات کا پردہ چاک کرنا شروع کیا تو ان کی باتوں نے عوام کو غیر معمولی طور پر متاثر کیا۔ بھٹو کو اپنے مقصد کے حصول کے لئے مبالغہ آرائی اور کذب بیانی سے بھی دریغ نہ تھا، چنانچہ جلد ہی عوام میں ان کا امیج ایک ایسے بے باک اور نڈر شخص کا بن گیا جو قومی مفادات کی خاطر آمر وقت کو للکارنے کی جرات رکھتا تھا۔ انتحاب ابن محمد جی فوجی راج کے پہلے دس سال
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا