مارشل لاء کی پہلی کابینہ نے ایوب خان کی ۱۹۵۴ء کی دستاویزکو ایک سیاسی چارٹر کے طور پر اختیار کر لیا۔ یہ کابینہ تین جرنیلوں اور چھ غیر فوجی اراکین پر مشتمل تھی۔اس کابینہ میں مغربی اور مشرقی پاکستان کو برابر کی نمائندگی دی گئی تھی۔ کابینہ کے غیر فوجی اراکین میں منظور قادر اور ذوالفقار علی بھٹو جیسی نابغہ روزگار شخصیات بھی شامل تھیں۔ منظور قادر کا تعلق پنجاب سے تھا، وہ قومی حلقوں میں اپنی آزادانہ سوچ کے حوالے سے احترام کی نگاہوں سے دیکھے جاتے تھے۔ انہیں کابینہ میں وزیر خارجہ کا قلمدان دیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو جو اس وقت سندھ کے نوجوان قانون دان تھے۔ تجارت کا محکمہ دیا گیا۔ قانون کی عملداری اور آئین کی بالادستی پر غیر متزلزل یقین رکھنے والے منظور قادر ایوب خان کی قوت فیصلہ اور مسائل سے نمٹنے کی غیر معمولی صلاحیت سے بے حد متاثر ہوئے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو ایوب خان کی شکل میں پاکستان کا ابراہیم لنکن اور کچھ عرصے بعد صلیبی جنگوں کا ہیرو صلاح الدین ایوبی دکھائی دینے لگا ۔ ۱۹۶۲ء کے آئین کی تیاری میں . منظور قادر اور بھٹو کے کردار کا ذکر مناسب مقام پر کیا جائے گا۔ یہاں اتنا بتا دینا کافی ہے کہ ایوب خان کو یہ باوکے کرانے میں کہ عوام کی رائے ایک بے معنی چیز ہے، اور سیاسی جماعتیں کسی بھی جمہوری نظام کے لئے زہر قاتل کا درجہ رکھتی ہیں، منظور صاحب کی قادر الکلامی کا بڑا دخل تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو ایوب خان کو تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھنے پر آمادہ کرنے کے لئے دلائل کے انبار لگا رہے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ ایک ایسا نظام حکومت تشکیل دینا چاہیے جس میں انتظامیہ کی تمام طاقت کا سرچشمہ صدر مملکت کی ذات ہو۔ ایوب خان ۱۹۶۲ء کے آئین میں صوبوں کو بااختیار فریق بنانا چاہتے تھے مگر ذوالفقار علی بھٹو انہیں اس خطرناک اشتراک سے باز رکھنے کے لئے اپنے قلم کے جوہر دکھاتے رہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت کے کئی پہلو تھے' وہ ایک وجیہہ پر جوش اور فعال انسان تھے۔ انہیں الفاظ کے ذریعے عام خیالات اور معمولی نظریات میں جذبات کا رنگ بھرنے کا ہنر آتا تھا۔ وہ ہر کسی کو اپنا حریف سمجھتے تھے۔ ان کی اس عادت نے انہیں دیوانگی کی حد تک شکی المزاج بنا دیا تھا۔ ایوب خان نے جب انہیں کابینہ کے لئے منتخب کیا تو اس وقت وہ ایک گمنام وکیل تھے اور ان کا کوئی سیاسی تجربہ نہ تھا، مگر چند ہی ماہ میں وہ ایوب خان کی ٹیم کے ایک اہم رکن کی حیثیت اختیار کر گئے۔ وزیر تجارت کی حیثیت میں جو کام بھی ان کے سپرد کیا گیا انہوں نے اسے نہایت تن دہی اور سلیقے سے سرانجام دیا۔ ایوب خان کی خواہش کے عین مطابق انہوں نے ملکی تجارت پر بیورو کریسی کا کنٹرول ختم کر دیا ۔ انہوں نے اس عرصہ میں سوویت یونین کے ساتھ پاکستان میں تیل نکالنے کا معاہدہ بھی کیا۔ تاہم ذوالفقار علی بھٹو کو اپنی شخصیت کے جوہر دکھانے کا موقعہ اس وقت ملا جب ایوب خاں نے جنوری ۱۹۶۳ء میں وزارت خارجہ کا محکمہ ان کے سپرد کیا۔ ۱۹۵۹ء میں منظور قادر کے دور میں چین کے ساتھ سرحدی معاہدہ کے سلسلہ میں مذاکرات ہو چکے تھے اور ۱۹۶۲ء کی چین بھارت جنگ کے بعد ایوب خان نے اس پنشانہ خط بھی کر دیئے تھے، مگر چونکہ اس معاہدے کی تفصیلات ۱۹۶۳ء میں منظر عام پر آئین، لہٰذا اس معاہدے کو بھٹو کا کارنامہ قرار دیا گیا، مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ بھٹو پاک چین دوستی کے ایک پر عزم معمار تھے۔ بھٹو نے پاکستان کو ایفرو ایشین ممالک سے جنہیں بھارت اپنی جولا نگاہ سمجھتا تھا، روشناس کرایا۔ ۱۹۶۵ء میں پاک بھارت جنگ کی بنیادی ذمہ داری بھی بھٹو پر عائد ہوتی ہے۔ جنگ کے بعد جب ایوب خان نے جنوری ۱۹۶۶ء میں تاشقند میں روسی حکومت کی میزبانی میں بھارت کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کئے جسے بھٹو نے بعد میں کڑی تنقید کا نوجیہہ بنایا تو بھٹو نے مصلونہ " یہ موقف اختیار کر لیا کہ ہماری بہادر افواج نے جو کچھ میدان جنگ میں جیتا تھا، ایوب خان نے مذاکرات کی میز پر اسے ہار دیا۔
الطاف گوہر کی کتاب سے اقتباس انتحاب ابن محمد جی
ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت کے کئی پہلو تھے' وہ ایک وجیہہ پر جوش اور فعال انسان تھے۔ انہیں الفاظ کے ذریعے عام خیالات اور معمولی نظریات میں جذبات کا رنگ بھرنے کا ہنر آتا تھا۔ وہ ہر کسی کو اپنا حریف سمجھتے تھے۔ ان کی اس عادت نے انہیں دیوانگی کی حد تک شکی المزاج بنا دیا تھا۔ ایوب خان نے جب انہیں کابینہ کے لئے منتخب کیا تو اس وقت وہ ایک گمنام وکیل تھے اور ان کا کوئی سیاسی تجربہ نہ تھا، مگر چند ہی ماہ میں وہ ایوب خان کی ٹیم کے ایک اہم رکن کی حیثیت اختیار کر گئے۔ وزیر تجارت کی حیثیت میں جو کام بھی ان کے سپرد کیا گیا انہوں نے اسے نہایت تن دہی اور سلیقے سے سرانجام دیا۔ ایوب خان کی خواہش کے عین مطابق انہوں نے ملکی تجارت پر بیورو کریسی کا کنٹرول ختم کر دیا ۔ انہوں نے اس عرصہ میں سوویت یونین کے ساتھ پاکستان میں تیل نکالنے کا معاہدہ بھی کیا۔ تاہم ذوالفقار علی بھٹو کو اپنی شخصیت کے جوہر دکھانے کا موقعہ اس وقت ملا جب ایوب خاں نے جنوری ۱۹۶۳ء میں وزارت خارجہ کا محکمہ ان کے سپرد کیا۔ ۱۹۵۹ء میں منظور قادر کے دور میں چین کے ساتھ سرحدی معاہدہ کے سلسلہ میں مذاکرات ہو چکے تھے اور ۱۹۶۲ء کی چین بھارت جنگ کے بعد ایوب خان نے اس پنشانہ خط بھی کر دیئے تھے، مگر چونکہ اس معاہدے کی تفصیلات ۱۹۶۳ء میں منظر عام پر آئین، لہٰذا اس معاہدے کو بھٹو کا کارنامہ قرار دیا گیا، مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ بھٹو پاک چین دوستی کے ایک پر عزم معمار تھے۔ بھٹو نے پاکستان کو ایفرو ایشین ممالک سے جنہیں بھارت اپنی جولا نگاہ سمجھتا تھا، روشناس کرایا۔ ۱۹۶۵ء میں پاک بھارت جنگ کی بنیادی ذمہ داری بھی بھٹو پر عائد ہوتی ہے۔ جنگ کے بعد جب ایوب خان نے جنوری ۱۹۶۶ء میں تاشقند میں روسی حکومت کی میزبانی میں بھارت کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کئے جسے بھٹو نے بعد میں کڑی تنقید کا نوجیہہ بنایا تو بھٹو نے مصلونہ " یہ موقف اختیار کر لیا کہ ہماری بہادر افواج نے جو کچھ میدان جنگ میں جیتا تھا، ایوب خان نے مذاکرات کی میز پر اسے ہار دیا۔
الطاف گوہر کی کتاب سے اقتباس انتحاب ابن محمد جی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
علمی وفکری اختلاف آپ کا حق ہے۔ بلاگ پر تمام خدمات بلا اجرت فی سبیل اللہ ہیں بس آپ سے اتنی گزارش ہے کہ بلاگ کو زیادہ سے زیادہ شئیر ،کمنٹس اور لائیک کریں ۔آپ اپنی پسندیدہ کتاب کی فرمائش کر سکتے ہیں۔اگر کسی کتاب کو ڈون لوڈ کرنے میں پریشانی ہو تو آپ کمنٹس میں لکھ دیجئے ان شاء اللہ اسکا لنک درست کر دیا جائے گا